کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی پیشگوئی 9 سال پرانی فلم میں ہوچکی تھی؟

اپ ڈیٹ 01 فروری 2020
فلم میں دکھائی جانے والی ایک مریضہ — اسکرین شاٹ
فلم میں دکھائی جانے والی ایک مریضہ — اسکرین شاٹ

عام خیال تو یہی ہے کہ فلموں کے ناظرین مشکل وقت کو کچھ دیر کے لیے فراموش کرنے کی خواہش کے ساتھ فلمیں دیکھتے ہیں مگر کئی بار معاملہ الٹ بھی ہوجاتا ہے۔

درحقیقت ایسا کبھی سنا نہیں گیا کہ 9 سال پرانی ایک فلم دنیا بھر میں وائرل ہوجائے بلکہ کچھ ممالک میں تو مووی رینٹل چارٹ پر پھر سے نمودار ہوجائے، مگر ایسا ہوا اور وہ بھی چین سے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانے والے 2019 ناول کورونا وائرس کے نتیجے میں ہوا۔

ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی 2011 کی تھرلر فلم 'کونٹیجن' کو چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے نتیجے میں نئی زندگی مل گئی ہے اور حیران کن حد تک یہ اس وقت پھیلنے والے وائرس سے کافی ملتی جلتی ہے۔

اس فلم کا آغاز ایک خاتون سے ہوتا ہے جو ہانگ کانگ سے واپس مینیسوٹا ایک عجیب بیماری کے ساتھ واپس لوٹتی ہے، چند دنوں میں اس کی موت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کے شوہر اور دیگر میں وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں وبا پھیل جاتی ہے۔

اس فلم میں بدترین منظرنامے کی دہلا دینے والی جھلک دکھائی گئی ہے کہ کس طرح افواہیں اور تشویش پھیلتی ہے اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، قرنطینے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور خالی ائیرپورٹس کے مناظر ریڑھ کی ہڈی میں سردلہر دوڑا دیتے ہیں۔

اس فلم کی کاسٹ بھی زبردست ہے جس میں میٹ ڈیمین، کیٹ ونسلیٹ، جوڈی لا، لورین فشنبرن، ماریون کوٹیلارڈ اور برائن کرانسٹن شامل ہیں اور ٹوئٹر پر متعدد صارفین نے اس کے خیال کو پوسٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے فلم میں کورونا وائرس کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

گوگل پر بھی اس فلم کے بارے میں سرچز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ آئی ٹیونز پر یہ 28 جنوری کو رینٹڈ فلموں کی ٹاپ 10 فہرست کا حصہ بھی بنی۔

فلم میں متاثرین کے ساتھ ویکسین کے لیے جی جان سے کوشش کرتے کردار دکھائے گئے ہیں اور اس میں ایک انتباہ چھپا ہوا ہے کہ کس طرح پالیسی فیصلے غلط رخ اختیار کرسکتے ہیں یا بلاسوچے سمجھے اقدامات کس حد تک تباہ کن اثرات کا باعث بن سکتے ہیں۔

جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی تو اس کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی لوری جیرٹ نے کہا تھا کہ اس کا پلاٹ کچھ افسانوی، کچھ حقیقی اور مکمل طور پر ممکن ہوسکتا ہے۔

خیال رہے کہ فلم میں ایم ای وی 1 نامی وائرس کو پھیلتے ہوئے دکھایا گیا اور اس وقت کورونا وائرس مختلف ممالک میں سامنے آیا ہے جسے فی الحال عالمگیر وبا کی جگہ گلوبل پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا ہے۔

مگر فلم میں یہ ضرور دکھایا گیا تھا کہ ایم ای وی 1 ایک حیوانی بیماری ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی، جیسا ابھی کورونا وائرس کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے۔

اس فلم میں یہ وائرس ایک چمگادڑ سے ایک چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ایک جانور منتقل ہوا اور پھر امریکی خاتون تک پہنچا اور کورونا وائرس کے بارے میں بھی مانا جارہا ہے کہ یہ چمگادڑ سے شروع ہوکر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے کسی جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔

تاہم یہ مکمل طور پر کورونا وائرس کے پھیلائو سے ملتی جلتی نہیں جیسے اس میں 29 دن میں دنیا بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ کورونا وائرس میں یہ تعداد اتنے دنوں میں 210 رہی۔

اور بھی ایسی ہی متعدد تضاد دیکھے جاسکتے ہیں مگر پھر بھی یہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے واقعات کے قریب ترین فلم ہے۔

وائرس کے پھیلاﺅ کی پیشگوئی کرنے والی دیگر فلمیں

مگتر یہ واحد فلم نہیں جو اس طرح کے وبائی مرض کے احوال کو بیان کرتی ہے بلکہ ایسا کئی بار پردہ اسکرین میں دیکھنے میں آیا ہے۔

ہولی وڈ میں اکثر زومیبز کی فوج کا باعث بننے والی وبا پر فلمیں جیسے دی اومیگا مین، ورلڈ وار زی اور Pandemic ریلیز ہوئی ہیں۔

ورلڈ وار زی —اسکرین شاٹ
ورلڈ وار زی —اسکرین شاٹ

مگر کچھ کہانیوں میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ انسانیت کے وجود کو جوہری ہتھیاروں نہیں بلکہ جراثیمی قاتل سے خطرہ لاحق ہے جس کی ابتدائی مثال تو 1971 کی فلم دی اینڈرومیڈا اسٹرین ہے جس کی ایک ایک کتاب سے اخذ کی گئی تھی اور اس کا خیال کئی بار فلمایا گیا جس میں دکھایا جاتا کہ کیسی سائنس اور ٹیکنالوجی پیشرفت انسانیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

دی اینڈرومیڈا اسٹرین — اسکرین شاٹ
دی اینڈرومیڈا اسٹرین — اسکرین شاٹ

اسی طرح کے موضوعات پر مبنی 2 فلمیں کافی نمایاں ہیں جن میں سے ایک 1995 کی 12 منکیز ہے، جو ایک سائنس فکشن فلم ہے جس میں ٹائم ٹریول کے ذریعے پلیگ وائرس کی روک تھام دکھائی گئی ہے جو بیشتر انسانوں کا خاتمہ کردیتا ہے۔

دوسری فلم آﺅٹ بریک تھی جس میں ہوا میں موجود وائرس افریقہ سے امریکا اسمگل ہوکر پہنچتا ہے اور اس کو پھیلنے کے لیے سائنسدان وقت کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔

ایسی صرف فکشن کہانیاں ہی نہیں بلکہ گزشتہ سال نیشنل جیوگرافک نے دی ہاٹ زون نامی حقائق پر مبنی سیریز نشر کی تھی جس میں 1989 میں ایبولا کے نمودار ہونے اور امریکی فوجی سائنسدانوں کی جانب سے اس کے ممکنہ اثرات کو درآمد شدہ بندروں کی مدد سے واشنگٹن پر کام کرنے جیسے مضوعات کو دکھایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں