'عالمی میڈیا نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر انسانی سلوک کو بے نقاب کیا'

اپ ڈیٹ 02 فروری 2020
اقوام متحدہ کی قراردادوں نے مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
اقوام متحدہ کی قراردادوں نے مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

کمشیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امام نے کہا ہے کہ دنیا، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کو دیکھ رہی ہے اور عالمی میڈیا بھی نئی دہلی کے غیر انسانی سلوک اور رویے کو اپنی رپورٹ میں بے نقاب کرچکا ہے۔

ملتان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فخر امام نے کہا کہ 'مسئلہ کشمیر ہر فورم پر اٹھایا گیا اور آئندہ بھی اٹھایا جائے گا اور 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہر سطح پر ریلیاں نکالی جائیں گی'۔

مزید پڑھیں: کشمیر پر کسی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، آرمی چیف

چیئرمین کشمیر کمیٹی کا کہنا تھا کہ 5 فروری کو وزیراعظم عمران خان آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

علاوہ ازیں فخر امام نے بتایا کہ مہاتماگاندھی کو آر ایس ایس کے ہندو توا رکن نے قتل کیا اور یہی وہ لوگ ہیں جو نئی دہلی میں بھارتی پولیس کی موجودگی میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرین پر کھلے عام گولیاں برسا رہے ہیں۔

فخر امام نے کہا کہ متنازع شہریت ترمیمی قانون کے تحت آسام کے 19 لاکھ شہریوں کو شہریت سے محروم کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں شٹ ڈاؤن سے ایک ارب ڈالر کا نقصان

عالمی فورمز سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت فرانس کی پارلیمنٹ میں بھی مسئلہ کشمیر پر تفصیلی بحث ہوئی اور بھارت کے غیر انسانی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'دنیا آج دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کا مرکز بھارت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ چرمن چانسلر نے بھی بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف کارروائیوں کو فوری روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں چیئرمین کشمیر کمیٹی نے کہا کہ بھارت کے ایک وزیراعلیٰ نے شہریت سے متعلق متنازع قانون کو عدالت میں چینلج کیا ہے لیکن بھارتی سپریم کورٹ بھی غیر جانبدار فیصلہ نہیں دے سکی اور بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کو دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: محاصرے میں سسکتی زندگی کے 100روز

انہوں نے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب بڑی جیل میں تبدیل کردیا۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی اہمیت دلانے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا قانون بنایا گیا تھا اور بی جے پی کی بھارتی حکومت نے کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیونافذ کردیا تھا جو تاحال جاری ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لینے اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کو کم از کم 181 روز مکمل ہوچکے ہیں۔

مواصلاتی بندش کے علاوہ بھارت نے کشمیر کے مقامی رہنماؤں کو گرفتار، ان کے سفر پر پابندی عائد کی تھی اور ہزاروں اضافی فوجیوں کو سیکیورٹی خدشات ظاہر کرتے ہوئے وادی میں تعینات کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: بھارتی عدالت کا ذاکر نائیک کی جائیدادیں ضبط کرنے کاحکم

اگرچہ چند پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے لیکن انٹرنیٹ تک رسائی بڑے پیمانے پر اب بھی بند ہے۔

کریک ڈاؤن کی وجہ سے سیاحت کے علاوہ زراعت، باغات اور آرٹس اینڈ کرافٹس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

سری نگر میں ایک ہوٹل چلانے والے وویک وزیر کا کہنا تھا کہ مجھے کئی مہینوں تک یہاں استحکام نظر نہیں آرہا، صورتحال غیر یقینی ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں