امن منصوبے سے انکار پر اسرائیل فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرے، امریکی عہدیدار

اپ ڈیٹ 03 فروری 2020
انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینی اپنے لوگوں کو بہتر زندگی دینا چاہتے ہیں تو اب ہمارے پاس یہ ایک فریم ورک ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینی اپنے لوگوں کو بہتر زندگی دینا چاہتے ہیں تو اب ہمارے پاس یہ ایک فریم ورک ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر نے کہا ہے کہ اگر فلسطین مشرق وسطیٰ کے نئے امن منصوبے کی شرائط کو نہیں مانے تو اسرائیل اُسے 'ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا خطرہ مول نہ لے'۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی جانب سے بھی منصوبے کی چند تفصیلات سے آگاہی پر اسرائیل نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا لیکن عرب لیگ سمیت خطے کے دیگر فریقین بشمول فلسطینی اتھارٹی نے سختی سے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔

مزیدپڑھیں: فلسطین سے متعلق امریکی منصوبے کے حمایتی عرب ممالک غدار ہیں، ترک صدر

جیرڈ کشنر کو سی این این کے میزبان فرید زکریا نے چیلنج کیا تھا کہ وہ یہ بتائیں کہ فلسطینیوں کو ریاست کا درجہ دینے سے پہلے شرائط کیوں پیش کی گئیں جو ایک ریاست جہاں آزاد پریس، آزادانہ انتخابات، مذہبی آزادی، آزاد عدلیہ اور قابل اعتماد مالیاتی نظام، کے لیے 'قاتل ترمیم' ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'کوئی بھی عرب ملک ایسا نہیں ہے جو ان معیارات کو پورا کرے یقیناً سعودی عرب اور مصربھی نہیں 'یا وہ دوسرے ممالک بھی ان شرائط پر پورے نہیں اترتے جن کے ساتھ جیرڈ کشنر نے کام کیا ہے۔

اس کے جواب میں جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ فلسطینی علاقے 'سیکیورٹی اہلکاروں' پر مشتمل ریاست ہے جہاں 'جہموریت کے لیے کوششں' نہیں کی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر فلسطینی اپنے لوگوں کو بہتر زندگی دینا چاہتے ہیں تو اب ہمارے پاس یہ ایک فریم ورک موجود ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ان معیارات کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ اسرائیل فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا خطرہ مول لے'۔

مزیدپڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر کو ان کے سخت بیان پر تنقید کا سامنا رہتا ہے اس سے قبل انہوں نے فلسطین کے حوالے سے کہا تھا کہ فلسطین کا ریکارڈ رہا ہے کہ وہ مواقع کھو دیتا ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبے سے انہوں نے دوبارہ لاپرواہی برتی تو انہیں بین الاقوامی برادری کا سامنا کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔

سی این این میں انٹریو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ فلسطینیوں کے لیے بہت بڑی بات ہے، اگر وہ میز پر آکر بات چیت کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں کوئی بہتر مقام مل سکتا ہے'۔

خیال رہے کہ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دوگنا ہوجائے گا'۔

اس منصوبے میں امریکا نے اسرائیل کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وادی اردن کو ضم کرنے کی بھی منظوری دی جو مغربی کنارے کا 30 فیصد علاقہ ہے جبکہ دیگر یہودی بستیوں کے الحاق کی اجازت بھی شامل ہے۔

منصوبے کے جواب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیجا تھا۔

محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا تھا کہ اب فلسطین، اوسلو کے معاہدے پر عمل درآمد سے آزاد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں