لندن میں چاقو حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی

اپ ڈیٹ 04 فروری 2020
حملے میں زخمی ہونے والے دونوں افراد ہسپتال میں زیر علاج اور خطرے سے باہر ہیں—تصویر: اے پی
حملے میں زخمی ہونے والے دونوں افراد ہسپتال میں زیر علاج اور خطرے سے باہر ہیں—تصویر: اے پی

لندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مرتکب افراد کی خودکار طریقے سے جلد رہائی کے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب لندن میں 2 فروری کو چاقو زنی سے لوگوں کو زخمی کرنے کے واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق 20 سالہ نوجوان سودیش امن نے جعلی خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لندن کی مصروف شاہراہ ساؤتھ اسٹریٹ پر 2 افراد کو چاقو سے زخمی کرنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔

مذکورہ شخص اس سے قبل کیے گئے دہشت گردی کے جرم کی سزا کاٹ کر کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لندن: پولیس کی فائرنگ سے حملہ آور ہلاک، واقعہ دہشت گردی قرار

داعش کے پروپیگنڈا دھڑے نے حملہ آور کو ’داعش کا جنگجو‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اس نے یہ حملہ شدت پسند تنظیم کے خلاف لڑنے والے عالمی اتحاد میں شامل ممالک کے شہریوں کو نشانہ بنانے کی کال کے جواب میں کیا'۔

مذکورہ واقعے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ سیکریٹری انصاف رابرٹ بکلینڈ سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کے نظام میں تبدیلی کے حوالے سے منصوبوں کا اعلان کریں گے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (حملہ آور) خود بخود جلد رہا ہونے پر کیا کررہا تھا اور اسکروٹنی یا پیرول کا ایسا کوئی نظام کیوں موجود نہیں کہ اس بات کا اندازہ لگایا جاتا کہ وہ رہائی کے لیے موزوں شخص ہے کہ نہیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میری پریشانی یہ ہے کہ ہم اس نظام کی طرف واپس جانا نہیں چاہتے جہاں ہماری سیکیورٹی سروسز سخت نگرانی کریں جہاں حراست کا معاملہ پھر بھی شاید بہتر ہوسکے‘۔

مزید پڑھیں: لندن برج پر چاقو سے حملہ، پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک

خیال رہے کہ ’سودیش امن کو دہشت گردی کے حملے کی منصوبہ بندی کے شبے میں مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، دسمبر 2018 میں اسے مختلف جرائم کی بنا پر 3 سال 4 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا‘۔

بعدازاں حال ہی میں خود کار طریقے سے سزا سے الگ ہونے پر جیل سے نکل جانے کے بعد وہ رہا ہونے والے نئے قیدیوں کے ہاسٹل میں مقیم تھا۔

حملے سے قبل پولیس کا کہنا تھا کہ ’انسداد دہشت گردی کی فعال نگرانی کے آپریشن‘ کے تحت سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد اس کا پیدل پیچھا کررہے تھے۔

تاہم سودیش امن نے ایک سستی اشیا کے اسٹور سے چھری چرائی اور سڑک پر موجود ایک خاتون اور اس کے بعد ایک مرد کو نشانہ بنایا جس کے بعد اسے قتل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لندن برج حملہ آور کی شناخت برطانوی شہری عثمان خان کے نام سے ہوگئی

مذکورہ حملہ آور کی والدہ نے اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا ایک ’بہت اچھا اور نرم مزاج لڑکا‘ تھا۔

حلیمہ فراز خان کا کہنا تھا کہ جب وہ جمعرات کو آیا تو بظاہر ’نارمل نظر آرہا تھا اور ان کے بیٹے نے انہیں اتوار کو حملے سے قبل کال کر کے مٹن بریانی بنانے کا کہا تھا'۔

سری لنکا سے تعلق رکھنے والی حلیمہ کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بیٹا جیل میں قید کے دوران شدت پسند بنا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ آن لائن ایسی چیزیں دیکھ رہا تھا جس سے اس کی برین واشنگ ہوئی کیوں کہ جیل جانے سے قبل وہ مذہبی نہیں تھا اور جیل سے آنے کے بعد وہ بہت مذہبی بن گیا تھا‘۔

واضح رہے کہ سودیش امن کے حملے سے زخمی ہونے والے دونوں افراد ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی۔


یہ خبر 4 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں