ایران، سعودی عرب اور یو اے ای سے اختلافات فوری ختم کرنا چاہتا ہے، سفیر

05 فروری 2020
ایرانی سفیر نے جنرل قاسم سلیمانی کو ایک پیغام قرار دیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
ایرانی سفیر نے جنرل قاسم سلیمانی کو ایک پیغام قرار دیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

عراق میں تعینات ایرانی سفیر ایرج مسجدی نے کہا ہے کہ ایران چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اختلافات جلد سے جلد ختم ہوجائیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ایرج مسجدی نے ایک بیان میں کہا کہ گزشہ ماہ امریکی ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد ایئرپورٹ میں ہلاکت ایران کے لیے سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ مصالحت کا پیغام تھا۔

خطے میں مصالحت کے لیے حالیہ عراقی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ایران اور سعودی عرب کے درمیان مسائل کے حل کے لیے عراق کے کردار کو سراہتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، ایرانی اسپیکر

ایرج مسجدی نے کہا کہ ‘ایران کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ جتنے اختلافات اور چیلنجز ہیں وہ جلد سے حل ہوں’۔

ان کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی اپنا پیغام دینے کے لیے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ پہنچے تھے جہاں انہیں مارا گیا اور اس نے تہران کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن سلامتی کے حصول کا تعین کردیا۔

خیال رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی جانب سے سعودی حکومت کو امن کے پیغام کی اطلاعات میڈیا رپورٹس میں سامنے آئی تھیں لیکن گزشتہ ماہ ہی سعودی عرب کے ایک عہدیدار نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں تہران اور ریاض کے درمیان ثالثی کے لیے سلیمانی کے کسی پیغام کا علم نہیں ہے۔

ایرج مسجدی کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے حملہ ہواتو ایران مستقبل میں بھی سخت جواب دے گا۔

امریکی فوج اڈے پر کیے گئے ایرانی حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عین الاسد پر حملے کی یہ اطلاع بھی تھی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں مارنے کی منصوبہ بندی وہاں ہوئی تھی اور ڈرون وہیں سے اڑایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:تیل کی تنصیبات پر حملے یمن سے نہیں ایران سے ہوئے، سعودی عرب

یمن جنگ میں سعودی عرب مسلسل ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کررہا ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ان کے اتحادی ہیں جبکہ ایران ان دعووں کو مسترد کرتا آیا ہے۔

گزشتہ برس 14 ستمبر کو سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے جس کے حوالے سے ایران پر شبہات کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ امریکا نے واضح طور پر اس کی ذمہ داری ایران پر عائد کردی تھی۔

سعودی عرب نے 18 ستمبر 2019 کو آرامکو پر حملے میں استعمال ہونے والے ڈرون اور میزائل کی باقیات پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایرانی جارحیت کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔

بعد ازاں ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا تھا کہ ایران خطے میں اپنے حریف سعودی عرب سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو دیے گئے انٹرویو میں علی ریجانی کا کہنا تھا کہ ‘ایران خطے میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے، ایران اور سعودی عرب کے مذاکرات سے خطے میں سلامتی اور کئی سیاسی مسائل حل ہوسکتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں:عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کو ملک میں فتح کے طور پر دیکھا جائے گا اور سعودی عرب کو صرف اپنے بڑے اتحادی امریکا پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

علی لاریجانی نے کہا تھا کہ ‘وہ دیکھیں گے کہ ایران کی حکمت عملی کام کر رہی ہے، ایران ایک مضبوط فوجی طاقت ہے اور جو ممالک ایران کے دوست نہیں ہیں ان کے لیے عسکری تنازع کے بجائے مذاکرات سود مند ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہماری طرف سے پیشگی شرائط کے بغیر ریاض مذاکرات کی میز پر اپنی تجاویز کو بحث کے لیے پیش کر سکتا ہے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں