بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کیلئے ٹرسٹ بنا دیا گیا، مودی

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
نریندر مودی نے رام مندر کی تعمیر کے لیے اراکین سے تعاون کرنے کا مطالبہ کیا — فوٹو: اے ایف پی
نریندر مودی نے رام مندر کی تعمیر کے لیے اراکین سے تعاون کرنے کا مطالبہ کیا — فوٹو: اے ایف پی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے منصوبے کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنادیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کی جانب سے بابری مسجد کے ساتھ مندر بنانے کے منصوبے کی نگرانی کے لیے ٹرسٹ بنائے جانے کے بیان کے بعد طویل عرصے تک مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی کا باعث بننے والا معاملہ اب ہندو انتہا پسندوں کی سوچ کے مطابق حقیقت بننے کے قریب جاپہنچا ہے۔

یاد رہے کہ 30 سال قبل ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا کے مقام پر قائم صدیوں پرانی بابری مسجد کو ڈھایا تھا جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچی تھی اور ملک میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے، جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔

مزید پڑھیں:بابری مسجد کی تعمیر، شہادت اور عدالتی فیصلے تک کیا کچھ ہوا

بھارت کی سپریم کورٹ نے دہائیوں بعد گزشتہ برس نومبر میں فیصلہ سنایا تھا کہ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے ایک ٹرسٹ بنایا جائے جو انتظامات کو دیکھے گا اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو کہا تھا۔

نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں ٹرسٹ بنائے جانے کا اعلان کیا تو پارٹی اراکین کی جانب سے ‘جے رام’ کے نعرے لگائے گئے اور تالیاں بجائی گئیں۔

بھارتی وزیراعظم نے مندر کی تعمیر کے بعد اس کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیجیے’۔

خیال رہے کہ مودی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد رام مندر کی تعمیر تھا جو بابری مسجد کی شہادت سے قبل شروع کی گئی تھی۔

بعد ازاں جب نریندر مودی 2002 میں بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو ایودھیہ سے آنے والی ریل میں آگ لگنے کے باعث 59 ہندو ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد کو بے دردی سے مارا گیا تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ

مودی کی جانب سے یہ انتہا پسند ہندوؤں کے موقف کے حق میں بیان پہلی مرتبہ نہیں آیا بلکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر مودی کا بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔

بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی رپورٹ کے مطابق مندر کی تعمیر 67 ایکڑ زمین پر ہوگی جبکہ ایودھیہ کے مضافات میں صرف 5 ایکڑ اراضی مسجد کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کو دی جائے گی۔

بھارتی وزیرداخلہ اور بی جے پی کے مرکزی صدر امیت شاہ نے مودی کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مندر کی تعمیر کا صدیوں پر مشتمل طویل آزما انتظار ختم ہوگیا اور لوگ بالآخر رام کی جائے پیدائش میں عبادت کر پائیں گے۔

یاد رہے کہ 1992 میں شہید کی گئی تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو سناتے ہوئے مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں:بابری مسجد کیس فیصلہ:بھارتی سپریم کورٹ نے تمام نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں

سابق چیف جسٹس بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’ایودھیا میں متنازع زمین پر مندر قائم کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے نمایاں مقام پر 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے۔

ایک ہزار 45 صفحات پر مشتمل مذکورہ فیصلہ اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع زمین کے مالک رام جنم بھومی نیاس ہیں، ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ مندر کی تعمیر کے لیے 3 ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دی جائے۔

فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کردیا۔

اہم ترین اور 27 سال سے جای کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ بابری مسجد کے نیچے بھی تعمیرات موجود تھیں جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بابری مسجد فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر نامناسب تبصرے،درجنوں افراد گرفتار

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کے اطمینان بخش شواہد موجود ہیں کہ بابری مسجد کسی خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔

فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھارتی عدالت عظمٰی میں نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس کو سپریم کورٹ نے12 دسمبر کو مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں