امریکی ماہرین طب نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک انقلابی دوا کی تیاری میں پیشرفت کی ہے جو انسولین کے انجیکشن کی ضرورت ختم کردے گی۔

متعدد ادویات خصوصاً پروٹینز سے بننے والی دوا منہ کے ذریعے نہیں کھائی جاسکتی کیونکہ وہ غذائی نالی میں جاکر ٹکڑے ہوجاتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

انسولین اس کی ایک مثال ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کو روزانہ یا اکثر انجیکشن کی شکل میں لگانا پڑتی ہے مگر امریکا کی نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اسمارٹ انسولین ڈیلیوری ڈیوائس تیار کی ہے، جو مستقبل قریب میں مریضوں کے گلوکوز کو مانیٹر اور کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ ضرورت پڑنے پر دوا فراہم کرے گی۔

چپک جانے والی پٹی جیسی یہ ڈیوائس دن میں ایک بار استعمال کی جاسکے گی۔

جریدے نیچر بائیومیڈیکل انجنیئرنگ میں شائع تحقیق میں اس ڈیوائس کے تجربات چوہوں اور سوروں پر کامیاب رہے اور اب سائنسدان امریکا کے ادارے ایف ڈی اے سے اس کے انسانوں پر آزمائش کی اجازت کے لیے درخواست دینے والے ہیں۔

اس کے ابتدائی کامیاب تجربات 2015 میں چوہوں پر کیے گئے تھے اور محققین کے مطابق ہمارا بنیادی مقصد ذیابیطس کے مریضوں کی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دینا ہے، یہ ڈیوائس مسلسل بلڈ شوگر کو چیک کرنے کی ضرورت کو ختم کردے گی اور ضرورت پڑنے پر انسولین انجکٹ کرے گی، یہ لبلبے کے افعال کی نقل کرے گا اور اس کا استعمال بہت آسان ہے۔

اس ڈیوائس میں ایک ملی گرام سے بھی چھوٹی سوئیوں میں انسولین کی مقدار لوڈ ہوگی جو خون میں بلڈشوگر کی سطح ایک مخصوص سطح پر دوا کو جسم تک پہنچائیں گی۔

جب بلڈشوگر کی سطح معمول پر آجائے گی تو ڈیوائس سے انسولین کی فراہمی کی رفتار سست ہوجائے گی اور محققین کا کہنا تھا کہ اس سے انسولین کی زیادہ مقدار جسم میں داخل کرنے کا خطرہ کم ہوگا جو کہ مختلف مسائل کا باعث بنتا ہے۔

ذیابیطس کے مریضوں کو خون کا ایک قطرہ ڈیوائس پر رکھ کر گلوکوز کی سطح کو جاننا پڑتا ہے جبکہ انسولین کو انجیکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔

اس ڈیوائس میں موجود سوئیوں میں پولیمر کی کوٹنگ کی تاکہ وہ معدے کے تیزابی ماحول میں بچ سکے، یہ سوئی خون کا قطرہ لینے کے استعمال ہونے والی عام سوئی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے اور انہیں گہرائی تک پہنچانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہر سوئی جسم میں نصف ملی میٹر داخل ہوتی ہے اور انسولین کی فراہمی کے لیے اتنا فاصلہ کافی ثابت ہوتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو ایف ڈی اے کے ایمرجنگ ٹیکنالوجی پروگرام نے قبول کرلیا جو اس کی منظوری کے عمل میں معاونت فراہم کرے گا اور انسانوں پر اس کی آزمائش آئندہ چند برسوں میں شروع ہونے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں