ترکی کی روس کو شام میں معاہدے کی خلاف ورزی پر پلان بی کی دھمکی

اپ ڈیٹ 10 فروری 2020
روس کے ساتھ 2018 کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلیب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں—فائل فوٹو: رائٹرز
روس کے ساتھ 2018 کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلیب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں—فائل فوٹو: رائٹرز

ترکی نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کے شمال مغرب سے متعلق 'محفوظ زون' کے امن معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو انقرہ پلان بی (ایکشن) پر عملدرآمد شروع کردے گا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے کہا کہ 'اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہمارے پاس پلان بی اور پلان سی ہے'۔

مزیدپڑھیں: ترکی، امریکا شمال مشرقی شام میں جنگ بندی پر راضی ہوگئے، مائیک پینس

ترک وزیر دفاع نے واضح کیا کہ 'ہم ہر موقع پر کہتے ہیں کہ ہمیں مجبور نہ کریں بصورت دیگر ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار ہے'۔

انہوں نے پلان بی اور سی کی تفصیلات بتانے سے گزیز کیا لیکن انقرہ کی جانب سے 2016 میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کا حوالہ ضرور دیا۔

ترک وزیر دفاع نے کہا کہ 'معاہدے کے مطابق ہماری چوکیاں ادھر ہی رہیں گی اس کے باوجود اگر کوئی رکاوٹ ہے تو ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ جو ضروری ہو گا وہ ہم کریں گے'۔

واضح رہے کہ روس کے ساتھ 2018 کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں۔

اس ضمن میں ترکی کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ رواں ہفتے ان میں سے 3 پوسٹوں کو شام کے صدر بشارالاسد کی سرکاری فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا۔

جس پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے دمشق کو رواں ماہ کے اواخر تک چوکیوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انقرہ (فوجی کارروائی کے ذریعے) انہیں واپس بھیج دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی کا شام میں مقاصد کے حصول تک آپریشن جاری رکھنے کا اعلان

انہوں نے روس پر بھی زور دیا کہ وہ شام کی حکومت کو جاری کارروائی کو روکنے کے لیے آمادہ کرے۔

واضح رہے کہ ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلو میٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔

معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فورسز 'سیف زون' میں مشترکہ پیٹرولنگ کریں گی۔

اس پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے معاہدے سے متعلق کہا تھا کہ اس سے خطے میں خونریزی کا اختتام ہوگا۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کے آپریشن میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں عسکری خلا کو پر کرنے کیلئے روسی افواج تعینات

انقرہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے 'پی کے کے' کو بلیک لسٹڈ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

انقرہ کی کرد فورسز کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کردی ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا 'گہری تشویش' کا اظہار کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں