لاہور ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی درخواستِ ضمانت مسترد

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سال 2000 میں شہباز شریف فیملی کے اثاثے 6 کروڑ تھے — فائل فوٹو: فیس بک
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سال 2000 میں شہباز شریف فیملی کے اثاثے 6 کروڑ تھے — فائل فوٹو: فیس بک

لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے حمزہ شہباز کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

حمزہ شہباز کی جانب سے ان کے وکیل سلمان اسلم بٹ جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی 3 رکنی کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز کے والد 3 مرتبہ وزیر اعلی رہ چکے ہیں جبکہ حمزہ خود بھی رکن اسمبلی رہے ہیں اور اب بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملزمان کا شہباز شریف، ان کے بیٹوں کیلئے منی لانڈرنگ کا اعتراف

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ حمزہ شہباز کے خلاف کیا الزام ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ نیب نے الزام لگایا ہے کہ حمزہ شہباز کے اثاثوں میں غیر قانونی اضافہ ہوا۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت حمزہ شہباز کے خلاف کارروائی کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ منی لانڈرنگ قانون 4 اکتوبر 2007 میں آیا تھا جس کے سیکشن 41 کے تحت یہ مالیاتی کیسیز پر لاگو نہیں ہو سکتا تھا، 120 دن کی مدت کے بعد دوسرا آرڈیننس 2009 میں آیا، پھر 2010 میں منی لانڈرنگ کا ایکٹ آیا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے آپ کا ایک نقطہ یہ ہے کہ نیب منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کر سکتا۔

جس کی تائید کرتے ہوئے وکیل نے جواب دیا کہ بالکل منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں، نیب آرڈیننس کے سیکشن 5 این کے تحت منی لانڈرنگ کا معاملہ نیب نہیں دیکھ سکتا جبکہ چیئرمین نیب کے پاس وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا بھی اختیار نہیں۔

مزید پڑھیں: نیب نے حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا

وکیل اسلم بٹ کا مزید کہنا تھا کہ اگر نیب نے کارروائی کرنی بھی ہے تو نیب ایک تفتیشی افسر مقرر کرے گا جو وارنٹ جاری کر سکتا ہے اور مقرر کیا گیا تفتیشی افسر ہی اثاثوں کی چھان بین کر سکتا ہے لیکن اس کیس میں خلاف قانون اقدامات کیے گئے۔

عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ حمزہ شہباز کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ 2018 تک حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 41 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ نیب کے وکیل پچھلے 15 سال کا اضافہ بتا رہے ہیں اس معاملے پر بھی عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

جس پر عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اثاثوں میں اضافے کے ذرائع کے بارے میں بھی بتانا ہے، عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ کے اثاثوں میں اضافے کے ذرائع کیا ہیں۔

جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ 15 سال میں 41 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے اور حمزہ شہباز کے تمام اثاثے ڈکلئیرڈ ہیں جبکہ ٹیکس ریٹرنز بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا شہباز شریف، حمزہ اور سلمان شہباز کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حمزہ کو بھائی سے اور باپ سے پیسے ملے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا، آپ نے ابھی حمزہ شہباز کے پیسوں کا ماخذ نہیں بتایا ہمیں وہ بتائیں۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز کو بیرون ملک سے بھی رقم آئی، عدالت نے دریافت کیا کہ باہر سے جو رقم حمزہ شہباز کو آئی وہ کس نے بھیجی؟

جس کے جواب میں ان کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے نہ کبھی رشوت لی نہ کبھی کک بیکس، حمزہ شہباز نے کچھ بھی چھپایا نہیں ہے سب کچھ ڈکلیئر ہے اور انہوں نے ٹیکس ریٹرنز میں سب کچھ بتایا ہوا ہے۔

نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: نیب کو حمزہ شہباز سے جیل میں تفتیش کی اجازت

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ سال 2000 میں شہباز شریف فیملی کے اثاثے 6 کروڑ تھے جو 2018 میں 300 کروڑ تک جا پہنچے جبکہ 2006 سے 2008 تک حمزہ شہباز نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا۔

نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ 2009 سے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا، بیرون ملک سے حمزہ شہباز کو 23 مختلف رقوم کی ترسیلات ہوئیں تاہم 2008 تک رقم حمزہ شہباز کے ذاتی اکاؤنٹ میں آتی تھی اور 2009 کے بعد بیرون ملک سے رقم حمزہ شہباز کی والدہ اور ان کے بھائی کے اکاؤنٹ میں آتی رہی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بیرون ملک سے جو پیسہ آیا ہے کیا وہ ڈائریکٹ اکاؤنٹ میں آیا جس پر نیب وکیل نے بتایا کہ حمزہ شہباز اور ان کے رشتہ داروں کے ڈائریکٹ اکاؤنٹس میں پیسے آتے رہے ہیں۔

نیب کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ اسی کیس میں دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کیا جنہوں نے بتایا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ کو غلط استعمال کیا گیا۔

نیب وکیل کا کہنا تھا کہ 3 بے نامی کمپنیوں کو بھی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا، سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں ڈیڑھ ارب سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں جبکہ 55 کروڑ روپے رابعہ عمران کے اکاؤنٹ میں آئے اور ٹرانسفر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اشتہاری قرار

جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے نیب پراسکیوٹر کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیسے تحائف کی مد میں حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بھجوائے گئے تھے جن رشتے داروں کے نام لیے جا رہے ہیں یہ کیس ان کے خلاف نہیں۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی ضمانت مسترد کر دی۔

منی لانڈرنگ کیس

واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 جون کو نیب نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔

نیب کا الزام ہے کہ حمزہ شہباز شریف کے 38 کروڑ 80 لاکھ کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ 2015 سے 2018 تک حمزہ شہباز نے اثاثے ظاہر نہیں کیے اچانک حمزہ شہباز نے 2019 میں کہا کہ ان کے اثاثے 5 کروڑ سے 20 کروڑ ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کے خلاف نیب کی جانب سے رمضان شوگر ملز، آمدن سے زائد اثاثہ جات اور صاف پانی کیس میں بھی ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔

تاہم 6 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے رمضان شوگر ملز ریفرنس کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں