انسانی معاشرت کی تاریخ میں کچھ الفاظ ایسے ملتے ہیں جن کی معنویت میں ایک جہان آباد ہے۔ ان کی تشریح کرنے کے لیے مختلف فنون کا سہارا لینا پڑجاتا ہے مگر تب بھی اس کو بیان کرنے کی تشفی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایک لفظ ’محبت‘ یا ’رومان‘ ہے۔

مذکورہ لفظ کے مزید مترادفات میں عشق، پیار، لَوّ اور چاہت جیسے الفاظ شامل ہیں، جن سے اس لفظ کی معنویت میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے اور تفصیل سے اس جذبے کو بیان کیا جاسکتا ہے۔

مگر ایک بات طے ہے، کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس لفظ کا طلسم ٹوٹا نہیں ہے۔ اس لفظ کی اپنی طے شدہ کیفیت ہوتی ہے، جس میں مبتلا فرد کبھی اس کے سحر سے باہر نہیں آنا چاہتا۔

امجد اسلام امجد نے اس جذبے کے احساس کو کس قدر سہل لیکن ڈوب کر لکھا ہے کہ

محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا

محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا

یہ مستند تصورِ محبت ہے۔ اس لفظ ’رومان‘ کی جادوگری پر صدیوں سے کتابیں لکھی جا رہی ہیں، قصے اور داستانیں رقم ہو رہی ہیں، مصور پینٹنگز بنا رہے ہیں، شعرا مصرعے گھڑ رہے ہیں، فلم کے پردے پر اس لفظ سے وابستہ کردار اندورنی جذبات کی سچی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں، غرض کہ فنونِ لطیفہ کی ہر شاخ میں اس لفظ کو اپنے اپنے پہلو سے مستعار لیا گیا اور پھر اس میں اپنی مرضی کے رنگ بھرے گئے۔

یہ لفظ آج بھی دنیا کا سب سے محبوب لفظ ہے کہ جس کی تسبیح ہر کوئی پڑھتا ہوا ملتا ہے۔ رشتے اور ناطے بدل جاتے ہیں، اندازِ محبت تبدیل ہوجاتا ہے لیکن کسی نہ کسی شکل میں محبت اور اس کی اپنے آپ میں مست رکھنے والی یہ کیفیت محسوسات کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔

ہم دنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو وہاں بھی رومان کے یہ سلسلے دستیاب ملتے ہیں، جن کے بارے میں جان کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ کوئی کیفیت اور احساس اتنی گہرائی اور تسلسل سے زندہ و جاوید بھی ہوسکتا ہے۔

ہزاروں سال کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو 7323 قبل مسیح کی ہندو دیومالائی داستانیں بتاتی ہیں کہ کس طرح رام (جو ایک ہندو دیوتا ’وشنو‘ کا اوتار مانا جاتا ہے) نے اپنی بیوی سیتا کی محبت میں کانٹوں بھری زندگی بھی خوشی خوشی بسر کی۔ اس کی رفاقت میں بن باس کاٹا اور رام کی تمام محبتوں پر سیتا کی محبت غالب آئی۔

یوں تاریخ کے قدیم ترین رومان کی بنیاد پڑی۔ اسی طرح 5771 قبل مسیح کرشن نامی ہندو دیوتا بھی گزرا ہے، جس کو ہندو مذہبی عقیدے کے مطابق ’وشنو دیوتا‘ کا آٹھواں روپ قرار دیا جاتا ہے۔ کرشن دیوتا نے جس طرح رادھا سمیت دیگر گوپیوں کے ساتھ رومانوی تعلقات کو استوار کیا، وہ بھی تاریخی رومان کا ایک سنہرا باب ہے۔

تاریخ کے جھروکوں سے دیکھا جائے تو مورخین، محققین اور مذہبی تعلیمات دینے والوں نے رومان کے اس پہلو کو اپنے طریقے سے بیان کیا، اس کے قواعد و ضوابط بھی مرتب کیے۔

شعر و شاعری اور ادب تخلیق کرنے والوں نے اپنی من مرضی سے رومان کے کئی فرضی کردار تخلیق کرلیے، جن کو دنیا بھر میں شہرت ملی۔ جس طرح شیریں فرہاد کا کردار فرضی ہے لیکن اس کو اب بھی ہمارے ہاں حقیقی مانا جاتا ہے۔ نثر نگاروں، شعرائے کرام، تاریخی ناول نگاروں کے ہاں بھی اس جذبے کی پرچھائی محسوس ہوتی ہے۔

1350 قبل مسیح میں ایران کی مقبول ترین قدیم داستان ’رستم سہراب‘ بھی ایک فرضی کہانی ہے لیکن رومان کے تناظر میں رستم و تہمینہ کی رومانوی داستان ایک اہم ترین حوالہ مانا جاتا ہے، جس طرح لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا اور دیگر کے قصے ہیں، جن سے رومان پرور جذبات کو فروغ ملتا ہے۔

ہیر رانجھا
ہیر رانجھا

یونہی 1199ء میں رونما ہونے والی ایک تاریخی محبت ’سیمسن اینڈ ڈیلائیلا‘ کی ہے، ایک حسین عورت کی اپنے محبوب سے بے وفائی کرنے کی داستان کو دلکش انداز میں رقم کیا گیا ہے۔ تاریخ کا پہیہ گھومتے گھومتے 69 قبل از مسیح کے مصری ادوار پر جب آکر رُکتا ہے تو وہاں مصری دنیا کی حسین عورت ’قلوپطرہ ہفتم‘ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ہمیں دکھائی دیتی ہے، جس کے حُسن کے سامنے گزشتہ 6 قلوپطرائیں بے معنی اور فرعون کی فرعونیت بھی ہیچ محسوس ہوتی تھی۔

یہ وہ عورت تھی، جس نے عورتوں کو زیب و آرائش کے فن سے باقاعدہ طور پر روشناس کروایا، جولیس سیزر جیسے حکمران کو اپنے رومان سے اسیر کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہی اور حکمرانوں کے کئی عقلی اصولوں کو اپنے ہوشربا جمال سے تہہ و بالا کیا۔ اس نے اپنے حُسن سے ایک طویل عرصے تک اردگرد کے افراد کو اسیر کیے رکھا، گویائی ایسی کہ سنتے رہیں، ظاہر ایسا کہ نظر نہ ہٹے، افکار وہ کہ جانکاری لینے والا اس کا قتیل ہوجائے۔

یوں اب ہم دیکھتے ہیں، کچھ عرصے سے ’یومِ محبت‘ کو بہت اہمیت ملنے لگی ہے۔ پوری دنیا میں منائے جانے والے یومِ محبت کو ’ویلنٹائن ڈے‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی کئی روایات مشہور ہیں، کوئی اس کو یونانی مِتھالوجی میں محبت کے دیوتا کیوپڈا اور حُسن و خوبصورتی کی ماں وینس سے موسوم کرتا ہے تو کسی کے نزدیک یہ کوئی راہب یا فوجی تھا، کسی نے اس کو قیدی بھی کہا ہے۔

سوہنی مہینوال
سوہنی مہینوال

غرض یہ کہ کئی تاویلیں ہیں لیکن کسی کے بارے میں تصدیق نہیں کی جاسکتی، البتہ اتنا ضرور طے ہے کہ 269ء کے آس پاس کوئی اس نام کا شخص موجود تھا جس کے حوالے سے اتنی روایات گھڑی گئیں اور مختلف پہلوؤں سے جتنا ذکر بھی ہوا، اس میں یہ نام سرِفہرست رہا۔

اس محبت کی کڑیاں رومیوں اور یونانیوں کی تاریخ اور ثقافت میں بھی واضح طور پر مل سکتی ہیں۔ اب یہ سلسلہ دراز ہوکر عہد موجود تک آپہنچا ہے، جہاں مغرب ہو چاہے مشرق، ہر جگہ اس یوم محبت کو منانے اور سجانے کا باقاعدہ احترام کیا جاتا ہے، اس کو پسند اور ناپسند کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس مبہم لیکن رومانوی خیال کے ساتھ کھڑی ہے۔

685ء سے لے کر اگلی کئی صدیوں تک مختلف عرب ریاستوں کے حکمرانوں اور ایرانی بادشاہوں کے رومانی قصے بھی تاریخ میں جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر مختلف اسلامی ادوار میں بھی بے شمار رومانوی داستانیں بکھری دکھائی دیتی ہیں، بالخصوص اموی اور عباسی ادوار کہ جن کی تفصیل پڑھی جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بہت رومان پرور مزاج پایا تھا۔

انہوں نے انہی جذبات کے زیرِ اثر حکمرانی کی اور معاشقے بھی کیے جن کی تفصیل کے لیے الگ دفتر درکار ہے کہ کس طرح ان کے رومان پروان چڑھے، کہاں کامیاب ہوئے اور کہاں ناکامی سے سامنا ہوا۔ یونان اور روم کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی محبت کی کہانیوں میں سیفو کی داستانِ عشق ہو یا پھر محبت کے دیوتا کی پرستش ہو، رومان کی کیفیت کا پُرکیف سفر تاحال جاری ہے۔

کچھ عرصے سے ’یومِ محبت‘ کو بہت اہمیت ملنے لگی ہے—ڈان فائل فوٹو
کچھ عرصے سے ’یومِ محبت‘ کو بہت اہمیت ملنے لگی ہے—ڈان فائل فوٹو

برِصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر بھی کئی بھرپور محبتوں نے جنم لیا، رومان کی تاریخ میں اپنی جگہ بنائی، چاہے وہ 467ء میں راج نرتکی کا رومان ہو، جس میں ایک امر پلی نامی رقاصہ نے راجا سے محبت میں خود کو نچھاور کردیا۔

13ویں صدی میں سندھ کی دھرتی پر سسی پنوں کی محبت کا عروج ہو یا چاہے 16ویں صدی میں پنجاب کی دھرتی سے جنمی مرزا صاحباں کی لازوال محبت کی داستان ہو، جس پر آج تک نظمیں تخلیق ہو رہی ہیں کہ جن میں محبت کے طوفانی جذبات کی اُٹھان محسوس کی جاسکتی ہے۔ یوں پھر اسی خطے میں داخل ہونے والے سلاطین ہوں یا مغل حکمران، سب نے رومان کی کیفیت کو دوام بخشا اور رومان پروری کے فروغ میں اپنی صلاحیتیں صَرف کیں۔

یہی وجہ ہے کہ محبت کی علامت سمجھی جانے والی سب سے بڑی رومانوی عمارت بھی اسی خطے میں تعمیر ہوئی، جس کا نام ’تاج محل‘ ہے۔ اس سے پہلے گزرے ہوؤں میں نوری جام تماچی، باز بہادر روپ متی، سوہنی مہینوال ہو یا 18ویں صدی میں وارث شاہ کے قلم سے تخلیق ہونے والی ہیر رانجھا کی رومانوی کہانی ہو، ہر طرف رومان کے رنگ غالب دیکھتے ہیں۔

سسی پنوں
سسی پنوں

تاریخ کے جھرونکوں سے دکھائی دینے والے محبتوں کے ان کرداروں میں سے اکثر حقیقی ہیں لیکن شاعری، افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور سب سے بڑھ کر فلموں میں اس قدر رومان بھرے کردار تخلیق کیے گئے ہیں جن پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

موجودہ دنیا میں ان چیزوں کے ذریعے محبت کا یہ سفر مزید آگے بڑھ رہا ہے، کبھی یہ اس محبت کا دن منا لیتے ہیں اور کبھی رومانوی جذبات پر کوئی فن پارہ تخلیق کردیتے ہیں۔ اصل بات رومان کے نکتے پر قائم رہنے کی ہے جس پر حساس دل اور کیفیت بھری روح رکھنے والے قائم رہتے ہیں۔

تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہمیں اس بات کی گواہی مل رہی ہے کہ انسان کا دل محبت سے کبھی کسی دور میں خالی نہیں ہوا، کسی نے کم تو کسی نے زیادہ لیکن اس جذبے کو محسوس سب نے کیا، صرف محسوس ہی نہیں کیا بلکہ عاشق خود کو مٹانے والے اس راستے پر گزرے تو جاں سے بھی گئے۔

تاریخ تو کم ازکم یہی گواہی دے رہی ہے اور رومان کے اس موسم کے تناظر میں بقول احمد ندیم قاسمی

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں ترا حُسن ترے حُسنِ بیاں تک دیکھوں

اک حقیقت ہی سہی فردوس میں حوروں کا وجود

حُسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

تبصرے (0) بند ہیں