کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ماہ میں 72 فیصد کم ہوگیا

اپ ڈیٹ 20 فروری 2020
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ سامنے آگئی — فائل فوٹو:اے ایف پی
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ سامنے آگئی — فائل فوٹو:اے ایف پی

کراچی: مالی سال 20-2019 کے پہلے سات ماہ کے دوران ملک میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 72 فیصد کم ہوکر 2 ارب 65 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہ گیا ہے جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 7 ارب 47 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس سے 6 ارب 82 کروڑ ڈالر کمی ظاہر ہوتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جنوری کے مہینے میں خسارہ 55 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا، جو دسمبر 2019 میں 31 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سے 77.32 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے جبکہ گزشتہ سال اسی مہینے میں 35.84 فیصد کم 86 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا تھا۔

گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی) کے حساب سے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ مالی سال 2020 کے 7 ماہ میں 1.6 فیصد رہ گیا جبکہ پچھلے مالی سال کے اسی مہینے میں 5.5 فیصد تھا۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے منافع میں 600 فیصد اضافے سے مالی خسارے میں کمی

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں زیادہ تر فرق درآمدی بل میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے ہوا یہاں تک کہ برآمدات میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی نمایاں کامیابی کے باوجود، درآمدی بل میں تیزی سے کمی پر معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے درمیان بحث شروع ہوگئی ہے جس میں بہت سست معاشی نمو کے لیے کم درآمدی بل کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے جنوری 20-2019 کے درمیان اشیا کی درآمد 26 ارب 8 کروڑ ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 32 ارب 48 کروڑ ڈالر تھی۔

دریں اثنا درآمدی سروسز میں معمولی، 4.47 فیصد کمی سامنے آئی جو گزشتہ سال کے 5 ارب 45 کروڑ کے مقابلے میں 5 ارب 21 کروڑ روپے رہی۔

یہ بھی پڑھیں: 4 ماہ میں تجارتی خسارے میں 34 فیصد کمی

7 ماہ کے دورانیے میں اشیا کی برآمد 30 کروڑ 60 لاکھ ڈالر (2.16 فیصد) اضافے کے بعد 14 ارب 44 کروڑ ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 14 ارب 13 کروڑ تھی۔

اسی طرح سروسز کی برآمدات میں بھی معمولی اضافہ دیکھا گیا جو گزشتہ مالی سال کے 3 ارب 7 کروڑ کے مقابلے میں 3 ارب 23 کروڑ رہی۔

حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد مالی سال 2018 میں 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا تھا، جس سے وہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی تعمیر اور شرح تبادلہ کو مستحکم کرتے ہوئے اس وقت سے نمایاں طور پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے تاہم قرضوں میں اضافے اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کا کم حجم اور برآمد کی مایوس کن کارکردگی کے ساتھ معیشت کو استحکام اور صحیح طور پر ترقی میں مدد نہیں مل سکی۔

تبصرے (0) بند ہیں