سرکلر ریلوے 6 ماہ میں نہیں چلائی تو وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرینگے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 21 فروری 2020
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ 6 ماہ میں سرکلر ریلوے بحال کرنا پڑے گی، 6 ماہ میں سرکلر ریلوے نہیں چلائی تو وزیراعظم، وزیراعلیٰ، سیکریٹری ریلوے سمیت سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق معاملے کی سماعت ہوئی، اس دوران سیکریٹری ریلوے، ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) سندھ سلمان طالب الدین اور صوبائی حکومت کے نمائندے و دیگر حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں رپوٹ جمع کروائی اور کہا کہ سرکلر ریلوے کے حوالے سے کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

انہوں نے سرکلر ریلوے سے متعلق بتایا کہ اس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوگی کیونکہ 14 ایل ویٹرز اور 10 اسٹیشن ہوں گے جس سے لوگ سرکلر ریلوے پر سفر کرسکیں گے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے 3 ماہ میں فعال کرنے کا حکم

دوران سماعت سیکریٹری ریلوے نے مذکورہ معاملے پر بتایا تو عدالت عظمیٰ نے ان کی سرزنش کی اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس حکم ہے، (ہم) یہاں سے جیل بھیج دیں گے (آپ) سوچ سمجھ کر منہ کھولیں۔

لکھ کر دیں کام نہیں ہوسکتا تاکہ قصہ ختم ہو، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ (آپ) عدالت اور لوگوں کو روزانہ خواب دکھا رہے ہیں، کیا افسری کر رہے ہیں ایک درجن سے زائد دفعہ یقین دہانی کرائی ہے، لکھ کر دے دیں کہ نہیں ہوسکتا تاکہ قصہ ختم ہو، جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ہم کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پتہ نہیں اس کا شہر میں کیا اثر ہوگا، بچوں کی طرح لگے ہوئے ہیں یہ بنا دیتے ہیں وہ بنا دیتے ہیں، سرکلر ریلوے کا ٹریک دیکھ کر آئیں، جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ جی میں کل دیکھ کر آیا ہوں۔

سیکریٹری کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کوئی یقین دہانی کراتے ہیں کبھی کوئی اور، جو کہانی آپ بتارہے ہیں سندھ حکومت نے سال بھر پہلے یہ بتادی تھی، سندھ حکومت کو پتہ تھا کہ زمین کی کیا حالت ہے، (وہاں) صرف ایلی ویٹڈ ٹرین چل سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وزیر آتے ہیں، عدالت میں کچھ کہتے ہیں اور باہر جاکر کچھ اور کہتے ہیں، آپ کو آئے ہوئے 2 ماہ ہوئے ہیں، کچھ دن میں آپ کا بھی تبادلہ ہوجائے گا۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے حکومت ہورہی ہے، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 9 مئی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سیکریٹری ریلوے نے کہا تھا کہ 15 دن میں ٹریک خالی کرا کر سندھ حکومت کو دے دیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سیشن میں آئیں گے جب تو کچھ اور نقشہ ہوگا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ نہیں سر یہی نقشہ ہوگا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق نقشہ پیش کیا۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ جہاں جہاں زمین پر ریل چلے گی وہ راستہ صاف ہے اور فینسک (باڑ) لگانے کا کام شروع ہوچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم

انہوں نے بتایا کہ 19 فروری کو وزیر ریلوے نے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی ہے، سرکلر ریلوے سے 6 سے 7 لاکھ لوگ روزانہ سفر کریں گے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے سرکلر ریلوے کی زمین پر بنی تعمیرات کے لیے ادائیگی کرنے والوں کے معاملے کی بات کی اور کہا کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو پیسے دے چکے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو بندہ اپنی جیب سے پیسے نکالتا ہے تو وہ جانچ پڑتال کرتا ہے، ایک کروڑ کی پراپرٹی 20 لاکھ میں جو لیتا ہے وہ جانتا ہے کہ میں رسک (خطرہ) لے رہا ہوں، لہٰذا اب ان کا رسک پورا ہوچکا ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ منصوبہ کب شروع ہوگا اور کب مکمل ہوگا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ منصوبہ فوری شروع کیا جائے گا، فریم ورک اور معاہدے تک کے فیصلے ہیں تاہم پیسوں کا مسئلہ ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ پیسے تو وہ کنٹریکٹر لارہے ہیں ناں۔

اس پر اے جی سندھ نے بتایا کہ سی پیک کے جتنے منصوبے ہیں ان کا فریم ورک ہوتا ہے، ساتھ ہی سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ابھی 25 تاریخ کو چینی سفیر کے ساتھ ملاقات ہوگی۔

دوران سماعت سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی پیش ہوئے اور اپنا تعارف کروایا کہ میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا نمائندہ ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اسمبلی نہیں ہے، آپ پھر لوگوں کے پاس جائیں۔

اس پر فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ میں ڈی ایس ریلوے کے پاس گیا تھا اور کہا تھا کہ لوگوں کو متبادل دیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ ہم سندھ حکومت میں نہیں ہیں۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلالیتے ہیں کہ آکر بتائیں، عدالت

فردوس شمیم نقوی کی بات پر عدالت نے سرکلر ریلوے سے متعلق استفسار کیا تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اس میں 2 سے ڈھائی سال لگیں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلالیتے ہیں کہ آکر بتائیں۔

اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے فردوس شمیم سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی حکومت کے خلاف آئے ہیں؟ حکومت کا نمائندہ کھڑا ہے ہمارے سامنے نمائندہ کچھ کہہ رہا ہے جبکہ حکومت کچھ اور کہہ رہی ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ کی حکومت کا یہی حال ہے، اندرجاکر طے کیوں نہیں کرلیے، اس پر اے جی سندھ نے جواب دیا کہ سرکلر ریلوے جو 90 کی دہائی میں تھا ویسا 6 سے 8 ماہ میں چل جائے گا، ناظم آباد پر ہر آدھے گھنٹے بعد اسٹیشن بند کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم

اسی دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 6 ماہ میں سرکلر ریلوے نہیں چلا تو وزیراعظم، وزیراعلیٰ، سیکریٹری ریلوے سمیت سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔

عدالت میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ منصوبے کا تخمینہ 2 ارب ڈالر لگایا ہے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نے 107 روپے کا ڈالر لگایا ہے۔

اسی دوران اے جی سندھ نے بتایا کہ چین کے لوگ آئیں گے وہی اس کو چلائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہمارے لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔

نارتھ ناظم آباد، لائنز ایریا بن چکا ہے، چیف جسٹس

عدالتی ریمارکس پر سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ 100 کی رفتار پر ٹرین چلے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم زمین پر ٹرین نہیں چلا سکتے، ہمارے اتنے بڑے بڑے انجینئرز جامعات سے نکلتے ہیں وہ نہیں چلا سکتے؟

ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اپنے لوگ ہم باہر بھیج دیتے ہیں پھر اپنے لیے باہر سے منگواتے ہیں، اس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ پتہ نہیں کونسی ٹرین چلا رہے ہیں۔

طویل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم سخی حسن قبرستان گئے تھے، جس پر اے جی سندھ نے کہا کہ جی مجھے معلوم ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نارتھ ناظم آباد میں کوئی سڑک نہیں ہے، لائنز ایریا بن چکا ہے، نارتھ ناظم آباد اور ایف بی ایریا میں بہت اچھے لوگ تھے لیکن (اب) ہر گھر اسکول اور ہسپتال میں بدل گیا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سڑکوں پر کچرا پڑا ہوا ہے، دس سال بعد وہاں گیا تھا پتہ نہیں تھا یہ کچھ ہو چکا ہے، ہمارا تو بہت برا تجربہ رہا۔

دوران سماعت کالا پل کا معاملہ بھی آیا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کالا پل کی صورتحال سامنے رکھیں تو کیا سرکلر ریلوے چل سکتی ہے؟

جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ کالا پل پر 4 کلو میٹر کے رہائشی لوگ ہیں وہاں مزاحمت کا سامنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے سال بھر پہلے کہا تھا کہ آپ کو فوج کو لے جانا پڑے گا پولیس اور نہ ہی رینجرز کا کام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے جگہ تو بنائیں پھر کام کریں، اس پر اے جی سندھ نے کہا کہ ہمیں تو پتہ بھی نہیں ہے کہ کہاں پلر بنیں گے۔

کراچی منی پاکستان ہے، چیف جسٹس

اسی دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے اپنے لوگ ہیں، کراچی منی پاکستان ہے، کچھ چیزین طریقے سے ہوں تو بہتر ہوگا۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گیلانی اسٹیشن پر کوآپریٹو سوسائٹی کا بورڈ لگ چکا ہے، جس پر سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ گیلانی اسٹیشن بحال کرالیا ہے باقی زمین پر ایک سوسائٹی بنی ہوئی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے عدالت میں موجود حکام سے استفسار کیا کہ آپ نے کیا کیا ہے لیز منسوخ کی ہے آپ نے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گیلانی اسٹیشن پر ایک عمارت کے 2 فلور بنے تھے وہ توڑ دیے گئے، اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو دیکھنا چاہیے تھا کہ کس کی زمین پر بن رہی ہے عمارت، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ جو ریلوے کی زمین ہے اس پر ریل چلے۔

تاہم اسی دوران ایک شہری نے کہا کہ گیلانی اسٹیشن پر جو سوسائٹی بنی ہوئی ہے وہ غیرقانونی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے اور سندھ حکومت والے ملے ہوئے ہیں، آپ لوگوں کے چہرے پر اتنی بے بسی ہے کہ شہر جیسا ہے ویسا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام 6 ماہ سے تعطل کا شکار

اس پر اے جی سندھ نے کہا کہ پھر سر ہم چلے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نہیں ہم چلے جاتے ہیں، بس فائلیں بنتی رہیں گی، زمینوں پر کام کرنے والے لوگوں پر آپ کا کنٹرول نہیں ہے یہ پولیس والے ملے ہوئے ہوتے ہیں، ایک کو پکڑنے جائیں گے، 10سفارشیں آجائیں گی، وزیراعلیٰ کہیں گے چھوڑیں چھوڑیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی والے کھڑے ہیں (پھر) ایم کیو ایم والے آجائیں گے۔

گرین لائن کی وجہ سے آپ اذیت دے رہے ہیں، عدالت

عدالت میں سماعت کے دوران کچھ دیر کا وقفہ ہوا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 25 فروری کو چینی سفیر کے ساتھ اجلاس ہے، جس کے بعد پتہ چلے گا کہ کتنے دن کے اندر فنڈ ریلیز ہوگا، چینی سفیر اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں گے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح تو صورتحال بہت خراب ہوجائے گی، جس پر اے جی سندھ نے کہا کہ 'بھکاریوں کو تو جو دیا جاتا ہے لے لیتا ہے'۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری قوم میں ایسا کوئی نہیں ہے جو یہ کرسکے، اپنے پاس اربوں، کھربوں والے مالکان ہیں۔

عدالتی بات پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اگر اس طرح ہوا تو شہر میں ٹریفک جام بڑھ جائے گا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے، گرین لائن کی وجہ سے بھی اذیت دے رہے ہیں۔

عدالت نے پوچھا کہ ٹریفک کے مسائل شہر میں کس نے پیدا کیے، جس پر کوئی جواب جب سامنے نہیں آیا تو عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ منصوبے کا مکمل انحصار چین پر کیا جارہا ہے، تاخیر کی وجہ سے شہر میں تجاوزات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، تجاوزات کے خاتمے میں بھی رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ سیکریٹری ریلوے نے تسلیم کیا کہ 'کے سی آر' کی زمین پر گلشن اقبال میں قبضہ ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گلشن اقبال میں ریلوے ملازمین کی سوسائٹی بن چکی ہے۔

تاہم اس موقع پر عدالت نے سیکریٹری ریلوے کو فوری قبضہ ختم کرانے کا حکم دیا اور کہا کہ قابضین کو ایک ہفتے میں نوٹس جاری کیے جائیں جبکہ متاثرین کو متبادل جگہ پر منتقل کیا جائے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی پلان ہی نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آپ لوگوں کو بے گھر نہیں کر سکتے، میں ان لوگوں کی وکالت کر رہا ہوں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہی بات دو سال سے کر رہے ہیں آپ، یہ بتائیں اتنے عرصہ میں کیا کیا آپ لوگوں نے؟ دو سال پہلے لوگوں کو متبادل کیوں نہیں دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو بھی تو متبادل دیا گیا لیکن (یہاں) ریلوے کی زمین پر پیٹرول پمپ، شادی ہالز چل رہے ہیں، اب تک ایک شادی ہال یا پیٹرول پمپ نہیں گرایا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سلمان طالب الدین آپ خود اپنے اندر کے انسان کو جانتے ہیں، آپ ذاتی طور پر کچھ اور کہہ رہے ہیں جبکہ ظاہری طور پر کچھ اور کہہ رہے ہیں، آپ بتادیں کہ لیاری میں 15 سال میں کوئی ایک سڑک بنائی ہو۔

دنیا ہنس رہی ہوگی کہ یہ ایک سرکلر ریلوے تک نہیں بناسکتے، چیف جسٹس

دوران سماعت سرکلر ریلوے سے متعلق اے جی سندھ کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے سرکلر ریلوے کی بحالی چینی کر رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فنڈز اپنے پاس سے خرچ کریں، کیوں نہیں کرتے، آپ کے اپنے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اندازہ نہیں کر سکتے، اپنے سرمایہ کاروں سے کیوں پیسے کی بات نہیں کرتے، جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ کوئی پیسہ نہیں دیتا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کو باہر جیسی سہولیات دیں گے تو لوگ باہر نہیں جائیں گے لیکن جب کوئی آئے گا تو آپ لوگ اتنا تنگ کریں گے کہ وہ پریشان ہوجائیں گے، ہر کوئی اپنا حصہ مانگے گا، چھوٹا سا انسپکٹر بھی سب کچھ ڈی ریل کردے گا، نیب کے تفتیشی افسر کو کچھ معلوم نہیں ہوتا، مگر ایک تفتیشی افسر پورے ملک کی معیشت کو جام کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر اپنے لوگوں کو بھی تو حصہ دینا پڑے گا، اگر یہاں کے لوگوں کو حصہ نہ دیا گیا تو چینیوں کے لیے مشکلات پیدا کر دیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کیس اسلام آباد منتقل کر دیتے ہیں، ہم نے فیصلہ گزشتہ سال دیا تھا آپ فیصلے کے ساتھ مذاق کرتے آرہے ہیں، 6 ماہ میں سرکلر ریلوے بحال کرنا پڑے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا ہنس رہی ہوگی کہ یہ ایک سرکلر ریلوے تک نہیں بناسکتے۔

مزید پڑھیں: ’کراچی سرکلر ریلوے کا 75 فیصد سے زائد راستہ کلیئر کروالیا‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ گزشتہ سال سے مذاق کرتے آرہے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ مسائل ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آپ حکم کردیں کہ یہ منصوبہ سی پیک سے نکال دیا جائے، اس پر عدالت نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کہیں گے حکومت خود کرے۔

تاہم سماعت کے دوران عدالت نے اخبارات میں شائع خبروں کا ذکر کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اخباروں میں آیا کہ نیا ماسٹر پلان بنالیں ہم تو ایسا کہیں نہیں کہا، جس پر اے جی سندھ نے کہا کہ جی بہت مس رپورٹنگ ہوئی ہے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اربن پلاننگ سے متعلق اخبارات میں اشتہار شائع کردیا گیا ہے، جس پر عدالت نے کہا اس کی وجہ سے اخبار میں آگیا کہ نیا ماسٹرپلان کا حکم دیا ہے، ہم نے کوئی ایسا حکم جاری نہیں کیا۔

جس پر اے جی سندھ نے کہا کہ نیا ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو آپ بناتے رہیں ہم نے نہیں کہا اور نہ ہی روک رہے ہیں، شہر کا ماسٹر پلان موجود ہے آپ نے بنانا ہے تو نیا شہر بنائیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں اپنی مرضی سے بندر بانٹ کر دی گئی، کراچی کو نئے ماسٹر پلان کی نہیں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، کراچی کو نہ بڑھائیں، نئے شہر آباد کریں، ٹھٹھہ اور حیدر آباد سے کراچی کو ملا دیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں