ڈان نے وفاقی حکومت کی جانب سے اشتہارات روکنے پر عدالت سے رجوع کرلیا

اپ ڈیٹ 27 فروری 2020
جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے، درخواست کا متن — فائل فوٹو
جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے، درخواست کا متن — فائل فوٹو

پاکستان ہیرالڈ پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ نے وفاقی حکومت کی جانب سے روزنامہ ڈان اخبار کے اشتہارات روکنے کا اقدام سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

پی ایچ پی ایل اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں سیکریٹری اطلاعات و نشریات کے ذریعے وفاق اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن افسر کے ذریعے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے اور پبلیکیشن کو اس کی کوئی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا، حالانکہ دہائیوں سے ڈان کو اشتہارات دیے جارہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ڈان کو سرکاری اشتہارات دینے پر پابندی کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے، درحقیقت ڈان کو اپنے مختلف ایڈیشنز میں ان آرا اور رپورٹس شائع کرنے پر سزا دی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کی آرا اور رپورٹس کے موافق نہیں تھیں۔'

درخواست گزار نے کہا کہ 'ڈان کے اشتہارات روکنا اور پابندی عائد کرنا اخبار کے آزادی صحافت کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔'

درخواست میں کہا گیا کہ رپورٹرز کو حالیہ بریفنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ڈان پر نومبر 2018 میں ان کے چین کے پہلے دورے کے دوران 'جعلی خبریں' شائع کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ الزام کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا۔

درخواست کے مطابق 'اسی طرح کی خبریں اور تبصرے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئے جنہیں سرکاری اشتہارات دیے جارہے ہیں بلکہ حقیقتاً ڈان کے اشتہارات روکنے کی وجہ سے ان کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: صحافتی تنظیموں کی ڈان گروپ کے سرکاری اشتہارات پر پابندی کی مذمت

اس میں مزید کہا گیا کہ ڈان 'میٹروپولیٹن اے' کٹیگری کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اخبار کی سرکولیشن کے اعداد و شمار حکومت کے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔'

درخواست میں کہا گیا کہ 'ڈان اخبار کو اس کی نیوز کوریج، تبصروں اور فیچرز کے معیار اور معروضیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، اخبار کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہے جو ایک وجہ ہے کہ عوام غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور تجزیوں کے باعث اسے پسند کرتے ہیں۔'

درخواست کے مطابق اخبار کی ادارتی ٹیم آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتی ہے جس کے امور میں انتظامیہ اور مالکان کا کوئی عمل دخل نہیں، تاہم اخبار اس کی چھپائی کی لاگت سے کم قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے اور اشتہارات کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے اس کی قیمت فروخت کو 'سبسیڈائزڈ' کیا جاتا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ 'وفاقی حکومت اشتہارات کا بڑا ذریعہ ہے اور وفاقی حکومت کے ماتحت وزارتیں، ڈویژنز اور اداروں کی جانب سے عوامی سطح کے نوٹسز اور آگاہی مہم جاری کیے جاتے ہیں۔'

اس میں کہا گیا کہ 'پی آئی ڈی کو چاہیے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات جاری کرنے میں انصاف سے کام لے اور اپنی من مانی اور تعصب کا مظاہرہ نہ کرے۔'

درخواست میں کہا گیا کہ 'پرنٹ میڈیا کو اشتہار جاری کرنا اور مختلف اخبارات کے لیے اس کی تقسیم کوئی مہربانی نہیں ہے جو حکومت جس پر بھی اور جس بھی وجہ سے کرے، جبکہ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 4، 9، 18، 19 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔'

درخواست گزار کے مطابق سرکاری اشتہارات نہ ملنے سے اخبار کو مجبوراً اس کی قیمت فروخت بڑھانے پڑی گی جس کی وجہ سے اس کی سرکولیشن بُری طرح اثر پڑے گا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی قرار دے اور اسے اخبارات کو اسی طرح اشتہارات جاری کرنے کا حکم دے جس طرح دسمبر 2019 اور اس سے قبل جاری کیے جارہے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں