فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کی بریت کیخلاف درخواستیں چیف جسٹس کو بھیج دی گئیں

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2020
وزارت دفاع کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت میں 70 سے زائد اپیلیں کی گئی تھیں۔ — اے پی پی:فائل فوٹو
وزارت دفاع کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت میں 70 سے زائد اپیلیں کی گئی تھیں۔ — اے پی پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: فوجی عدالتوں سے سزا سنائے جانے والے متعدد مجرموں کو بری کرنے کے پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے چیف جسٹس گلزار احمد کو اپیلیں بھجواتے ہوئے لارجر بینچ کے قیام کی درخواست کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کے پاس بھیجتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی اپیلوں کو 3 رکنی بینچ کی جانب سے سنا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت میں 70 سے زائد اپیلیں دائر کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزائے موت معطل

یہاں یہ مدنظر رہے کہ کہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے نومبر 2018 کو یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردی کے الزامات میں دی جانے والی سزا غلط اور غیر قانونی خواہش پر مبنی ہے۔

قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو مختلف کیسز میں سزائے موت سمیت دیگر سزا پانے والے ملزمان کو بری کرنے سے روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کیا تھا۔

ادھر عدالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) ساجد الیاس بھٹی نے عدالت میں وزارت دفاع کی نمائندگی کی جبکہ مختلف مجرموں کی جانب سے محمد عارف اور لئیق احمد سواتی پیش ہوئے۔

حکومت نے عدالت عظمیٰ میں موقف اپنایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ملزمان کے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاورہائیکورٹ: فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم کی سزا معطل

دوسری جانب وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر کارروائی سے روک دیا ہے حالانکہ ایک اعلیٰ عدالت کے ذریعہ بری ہونے والوں کو کبھی بھی روکا نہیں جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان ہائی کورٹ کے ذریعہ بری ہونے کے بعد بھی گزشتہ 18 ماہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

یاد رہے کہ نومبر 2018 میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 'قانون اور حقائق میں بدنظمی' کی بنیاد پر ملزمان کی سزاؤں کو ختم کردیا تھا۔

ہائیکورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تمام مجرموں اور نظربند افراد کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا تھا اور مزید کہا تھا کہ ان کی غیر معینہ مدت تک نظربندی بشمول انٹیلیجنس ایجنسیوں کی تحویل میں رکھے جانے کو سزا کے مقصد کے لیے کسی طور پر بھی سراہا نہیں گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں