پاکستان میں عصری ادبی منظرنامے کا خلاصہ پیش کیا جائے تو اختصار کے ساتھ یوں ہے ’ہم ایک ایسے ادبی عہد میں جی رہے ہیں، جہاں ایک طرف کمپنی بہادر کے ہرکارے مشغول اور دوسری طرف مغل بادشاہوں کے گماشتے مصروفِ عمل ہیں‘۔

زبان و ادب کی خدمت کے نام پر ’اردو‘ اور ’ادب‘ جیسے نیم جاں استعارے ہیں اور ان کی زندگی انتہائی غریب مزارعوں کی مانند بسر ہو رہی ہے، جن کی حاصل شدہ فصل کم اور وصول شدہ لگان زیادہ ہے، پھر بھی تجارتی روزنامچے کا پیٹ ہے کہ بھر کے نہیں دیتا ہے۔

میں گزشتہ 10 سال سے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرتا رہا ہوں، اور اس بار جب 11ویں ایڈیشن کا اعلان ہوا تو میرے پاس فرصت بھی تھی اور آسانی سے شرکت بھی ہوسکتی تھی، لیکن پھر بھی جان بوجھ کر میں اس ادبی میلے میں نہیں گیا۔ اس ’نہیں‘ کی کیفیت کو سمجھنے کے لیے اس تحریر بشمول دیے گئے لنکس کی تحریروں کو بالترتیب پڑھنا ہوگا، تب کہیں جاکر بیل منڈھیر کو چڑھے گی اور جو میں کہہ رہا ہوں، آپ قارئین اس کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ سکیں گے۔

مزید پڑھیے: ’ادب فیسٹیول‘: ادب کی بے ادبی کا نیا طریقہ

ان 10 سالوں میں کتاب لکھنے والے کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے یا نہیں لیکن کتب فروشوں کے ہاں اکثریت کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سینئر سیاستدان کا ایک قول بہت مشہور ہوا کہ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ شاید اسی طرح اب اہلِ ادب سے انتقام لینے کا بہترین طریقہ ادبی میلوں کا انعقاد ہے، چاہے اس میں فلم ’باجی‘ چلا دیں، لیکن میلہ ادبی ہی رہے گا۔ بالائے ستم یہ کہ سیاستدانوں، تاجروں، صحافیوں، اداکاروں اور دیگر غیر ادبی عناصر کی شرکت بھی ادب کی خدمت ہی تصور کی جائے گی۔ اب تو پورا ملک ان ادبی میلوں کی وبا میں مبتلا ہوچکا ہے، بلکہ یوں کہیں یکسانیت کے ’کچھ کرونا وائرس‘ کا شکار ہوچکا ہے۔

ادبی میلوں بالخصوص کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں کی ادبی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جائے تو اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے قلم کار ہی نہیں ہیں۔ کچھ اگر ہیں بھی تو صرف کالم نویسی کی حد تک اور اکثریت نے تو کئی برسوں سے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ پھر کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کا کتاب سے دُور دُور تک کوئی واسطہ ہی نہیں، لیکن یہ سب ہر سال ادبی میلے کا حصہ ہوتے ہیں۔

اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی کی انتظامیہ بدلی لیکن ان کے ادبی حالات نہ بدلے۔ مجال ہے انہوں نے اس تبدیلی کا معمولی سا بھی احساس ہونے دیا ہو۔

ہم سب پاکستانی، ادب کے ’کچھ کرونا وائرس‘ کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، جہاں یہ ناشر ادارے تو ایک طرف، دانشور، ادیب، لکھاری بھی اپنی خود ستائشی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

مزید پڑھیے: کراچی لٹریچر فیسٹیول 2015: اونچی دکان، پھیکا پکوان

مثال کے طور پر کچھ قلم کار ایسے ہیں جو اس ادبی میلے میں گزشتہ 10 برسوں میں باقاعدگی سے شریک ہو رہے ہیں مگر انہی کے کئی ہم عصر ایسے ہیں جن کی خدمات کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے باوجود ان کو ایک بار بھی مدعو نہیں کیا گیا، اور مجال ہے کہ ہر سال شرکت کرنے والے قلم کار کسی دوسرے کا نام تجویز کریں یا ان کے لیے جگہ خالی چھوڑیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ اتنا تو ادب تخلیق نہیں کیا، جتنی وہ ان ادبی میلوں کی جگالی کرچکے ہیں۔

ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے، یہ ادبی میلے اپنے اندر سے یکسانیت کے رویوں کو ترک نہ کرسکے۔ ان جیسے نام نہاد ادبی میلوں نے ایک طرف معاشرے میں اردو زبان کی بساط لپیٹ دی، بس ایک علامتی سا تعلق رہ گیا ہے۔ دوسری طرف انگریزی زبان نے اپنے حواریوں کی تعداد میں اضافہ کیا، مگر وہ بھی محدود ہی ہے۔

منیزہ شمسی اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں—وائٹ اسٹار
منیزہ شمسی اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں—وائٹ اسٹار

حالانکہ اصل ادب تخلیق ہو رہا ہے، فکشن اور نان فکشن دونوں طرح کی کتابیں بھی لکھی جا رہی ہیں ، لیکن سوائے بار بار دھرائے گئے ناموں کے علاوہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

ایک ہاتھ سے جاتی ہوئی اردو زبان اور دوسرے ہاتھ میں سختی سے تھامی ہوئی انگریزی زبان کے تصادم کے پیش منظر، ان میلوں کا مسلسل اور ایک ہی طرح کے فارمیٹ کی بدولت منعقد ہوتے رہنا، مکھی پر مکھی مارتے رہنا جیسا ہے۔ ان کی پوشیدہ بانجھ صلاحیتوں کی چشم کشا داستان ہے، جس کو مسلسل ہوتے ہوئے ایک دہائی گزر گئی، لیکن یکسانیت کے سلسلہءِ کمرشیلیہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ انہوں نے نہ پہلے کسی کی بات پر کان دھرا، نہ ہی شاید اب دھریں گے، کیونکہ جب تک انہیں تجارتی ثمرات مل رہے ہیں، یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔

مزید پڑھیے: کراچی ادبی 'تماشا'

میں گزشتہ برسوں میں لکھی گئی اپنی تحریروں میں بہت تفصیل سے بتا چکا ہوں کہ مسائل کیا ہیں، ان کی درستی کا حل کیا ہے، اصل ادبی میلہ یا ادب کے فروغ کی سعی کے لیے کیا کرنا ہوگا، یا اب تک کیا ہوتا آیا ہے، مگر کیا کہیے، اس موقع کے لیے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی غزل کے چند اشعار یاد آرہے ہیں، انہوں نے فرمایا تھا کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گرکو میں

پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار

جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں

بات اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ پہلی مرتبہ جب میں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی تھی، جو ایک ایسے نجی ہوٹل میں منعقد ہوا تھا، جہاں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں جاتی تھی، تب ہم کچھ دوستوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر وہاں پہنچنے کا انتظام کیا تھا۔

بشری انصاری کراچی لٹریچر فسٹول میں شریک ہیں
بشری انصاری کراچی لٹریچر فسٹول میں شریک ہیں

خاص طور پر اس کے ابتدائی 2 برس تو اتنے زرخیز اور عمدہ تھے کہ آج تک ان برسوں کی یادیں ذہن کو مہکاتی ہیں۔ لیکن میں کتنی بار یہ لکھ چکا کہ پھر وقت کی ریت مٹھی سے جیسے جیسے پھسلتی گئی، اس ادبی میلے کا معیار بھی غیر ہوتے ہوتے غیر معیاری ہوگیا۔ غالب سے پہلے کا ایک شاعر سراج اورنگ آبادی ہے، جس کا نام میں نے تو کبھی ان 10 سالوں میں اس ادبی میلے میں نہیں سنا، اس صورتحال پر اس کے کلام کی آمیزش محسوس کیجیے کہ:

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

اس سال کے ادبی میلے کے شرکا اور سیشنز کے موضوعات پڑھیں تو 50 فیصد سے بھی کم ادبی اور کتابی مواد ملے گا۔ مجھے بتائیے کراچی میں ایک فوڈ فیسٹیول بھی منعقد ہوتا ہے اگر وہ اپنے فیسٹیول میں جوتے اور کپڑوں کے سیشن منعقد کرنے لگ جائیں تو کیسا محسوس ہوگا؟ اس ادبی میلے میں ادب سے رغبت رکھنے والوں کے ساتھ یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ ادب کے جیب کترے اور ان کا طریقہ واردات یہی ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی ادبی میلے کی غیر ادبی کہانی

یہ ادبی میلے اس لیے کامیاب ہیں کہ ان سے نہ صرف مالی فوائد حاصل ہورہے ہیں بلکہ مفت تشہیر بھی مل رہی ہے، اور جب تشہیر ہی مقصد ہے تو ادب کی جان چھوڑ دیں، اس کو کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ کیا یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے ادبی استحصال ہی کیا جائے؟

کراچی لٹریچر فیسٹول میں کتاب On Their Own Terms: Early Twenty-First Century Women’s Movements in Pakistan کی تقریب رونمائی بھی ہوئی
کراچی لٹریچر فیسٹول میں کتاب On Their Own Terms: Early Twenty-First Century Women’s Movements in Pakistan کی تقریب رونمائی بھی ہوئی

ایک دور ہوتا تھا، جب کتاب بہترین دوست کا کام کرتی تھی۔ ناول اور افسانوں کے کردار قاری کی ذات کا حصہ بن جایا کرتے تھے۔ جب اشعار اور متن زبان کی شیرنی کو مزید بڑھا دیتا تھا، جب کتابیں شعور اور تخیل کی آبیاری کا کام کرتی تھیں۔ اب ادب صرف بے ہنگم ہجوم کو اکٹھا کرنے کی سرگرمی بن چکا ہے، جس میں سارے زاویے صرف اور صرف کمرشل ہیں۔ تخلیق اور تخیل ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ تخلیے اور تنہائی کی چیز ہوا کرتی تھی۔ ادبیت سے ذوق اور جذبات کی ترجمانی کا کام لیا جاتا تھا۔

اب جس کو ادب کہا جارہا ہے، یہ ادب نہیں صرف واردات ہے، جس میں اب ایک بڑی تعداد ادبی جیب کتروں کی ہے، جو بظاہر اس ادب کے لیے جمع کیے گئے ہجوم کا حصہ ہیں، لیکن ان کا ہدف اپنی واردات ہے نہ کہ ادب کی خدمت۔

ایک دور تھا، جب شعر نعرہ ہوا کرتا تھا اور کہانیاں قارئین کے خواب، جن کو پڑھا نہیں جاتا تھا بلکہ ان کو جیا جاتا تھا اور ان میں رہا جاتا تھا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ یہ دور پھر واپس لوٹ کر آئے گا کیونکہ یکسانیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جو بے حد ہوچکی ہے اور ایک دہائی یکسانیت سے بوجھل بھی ہے۔

2018 میں پاکستان میں ہونے والے سالانہ ادبی میلے اور علمی سرگرمیاں

ایک منظر یہ بھی ہے کہ چائے کی پیالی سے بھاپ اُٹھ رہی ہے، میں گیبریل گارشیا مارکیز کا ناول ’تنہائی کے سو سال‘ پڑھ رہا ہوں۔ رات گئے جنوبی کوریا کی فلم ’پیراسائٹ‘ دیکھی تھی، جس کو حال ہی آسکر ایوارڈ بھی ملا ہے، اور میں ابھی تک اس کہانی کی بنت کے اثر میں بھی ہوں۔

سردار مسعود خان اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں—فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
سردار مسعود خان اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں—فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

منٹو اور جون کے کئی مصرعوں میں زندگی کی تفہیم حاصل کرنے کے واسطے اپنے اسٹڈی ٹیبل کے سامنے والے نوٹس بورڈ پر ان کے اقوال کنندہ کرچکا ہوں۔ کچھ دیر میں ایک دوست مجھ تک پہنچنے والا ہے، جس نے دنیا کا پہلا ناول اردو میں ترجمہ کردیا ہے، وہ اس تجربے کو مجھ سے بیان کرے گا، ہم بہت دیر تک ناولوں اور فلموں کے کرداروں کی بابت منظرنامے ڈسکس کرتے رہیں گے، اس دوران چائے کے بھی کئی دور ہوں گے۔

پھر جب میں کل صبح کا اخبار پڑھوں گا تو وہ مجھے باخبر کرے گا کہ ٹھیک اسی وقت شہر میں ایک ادبی میلہ بھی جاری تھا، جہاں ملک کے معروف سیاستدان بہت اچھی تقریریں کر رہے تھے، ان کے ہر سیشن کا گروپ فوٹو بھی اخبار کی زینت بنے گا۔ اسی کے نیچے ذیلی سرخی ہوگی کہ وہاں ادبی میلے میں کئی شرکا کی جیبیں کتر لی گئیں، شکر ہے لوگوں کا دھیان ان لمحوں اور جذبات کی طرف نہیں گیا، جن کے کترنے کا احساس جان لیوا ہوتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ چائے کے کپ کے ساتھ اپنے پسندیدہ ناول اور فلم کے ساتھ وقت گزاریں یا پھر ...

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Mar 03, 2020 09:41pm
میں خرم سہیل کے اٹھائے گئے نکات سے سہمت ہوں لیکن یہ بھی کہوں گا کہ، جو لوگ یہ میلہ لگا رہے ہیں ان کے پیش نظر یقیناً کوئی مقصد ہوگا۔ انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے اور جن لوگوں کو یہ طریقہ کار پسند نہیں ہے وہ اپنا ایک الگ میلہ منعقد کریں۔ خاص طور پر وہ ادیب اور شعرا جن کو اس میلے میں پزیرائی نہیں ملی۔ کیوں نہ کوئی تنظیم ریختہ (بھارت) کی طرز پر بنا لی جائے۔
قمر فاروقی Mar 03, 2020 10:23pm
وہ دور پھر واپس لوٹ کر آئے گا اگر آپ اسی طرح جعلسازوں کو بے نقاب کرتے رہے
Mumtaz aHMED shah Mar 04, 2020 07:23am
What an excellent article written by Mr.Khurrum Sohail well done .(Texas)