ایف آئی اے میں آن لائن بدسلوکی کی 56 ہزار شکایات پر صرف 32 کی تحقیقات

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2020
جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق اراکین پارلیمنٹ کو بھی سائبر کرائم کا سامنا ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر
جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق اراکین پارلیمنٹ کو بھی سائبر کرائم کا سامنا ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑھتے ہوئے استحصال کو روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی کارکردگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹس طلب کرلیں۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کی سربراہی میں ہوا جس میں ایف آئی اے کے اس دعوے پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ادارے کو مختلف طرح کی آن لائن ہراسانی کی 56 ہزار شکایات موصول ہوئیں اور ان میں سے محض 32 کی تفتیش کی گئی۔

اس پر سینیٹر روبینہ خالد نے ریمارکس دیے کہ ’یہ مایوسی کی بات ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادارے کو متحرک ہونا پڑے گا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پورا کرسکے‘۔

اس سے قبل اجلاس میں ایف آئی اے کے شعبہ سائبر کرائم کے ڈائریکٹر وقار چوہان نے کمیٹی اراکین کو بریفنگ دی۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین، بچوں کیخلاف سائبر جرائم پر فیس بک، ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کرے گی

گزشتہ برس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 27 ہزار شکایات میں سے 11 ہزار سے زائد کیسز کی تحقیقات کی گئیں اور سائبر جرائم کے زیادہ سے زیادہ 32 کیسز میں ملزمان کو سزا ہوئی۔

اس پر کمیٹی اراکین نے نشاندہی کی کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق اراکین پارلیمنٹ کو بھی سائبر کرائم کے مسائل کا سامنا ہے۔

بعد ازاں کمیٹی چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پس پردہ عناصر کا سراغ لگائے لیکن زیادہ تر یہ ذمہ داری پی ٹی اے کو دے دی جاتی ہے۔

اسی دوران سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹس کمیٹی کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔

کمیٹی اراکین نے بتایا کہ سینیٹر کلثوم پرویز، سینیٹر تاج محمد آفریدی، سینیٹر اعتزاز احسن اور دیگر کے ناموں سے جعلی اکاؤنٹس بنانے پر ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی جاچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم ایکٹ کے تحت عدالت نے پہلی سزا سنادی

سینیٹرز نے پوچھا کہ اگر یہ سب اراکین پارلیمان کے ساتھ ہورہا ہے تو عام افراد کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا؟

جس پر ایف آئی اے عہدیدار نے کہا کہ ان جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کردیا گیا ہے تو سینیٹرز کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

کمیٹی اراکین کی رائے یہ بھی تھی کہ سائبر کرائم کے پسِ پردہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور مطالبہ کیا کہ مجرمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ اراکین سینیٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کیس کی تحقیقات میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم ونگ کے افسران کےخلاف تحقیقاتی یونٹ قائم

تاہم سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب صدیقی ایف آئی اے کے شعبہ سائبر کرائم کی مدد کو آئے اور کہا کہ محکمہ کے پاس انسانی وسائل محدود ہیں، اس کے علاوہ اس شعبے کو بجٹ میں رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔

شعیب صدیقی کا کہنا تھا کہ شعبہ سائبر کرائم کے اپنے طریقہ کار ہیں جو تکنیکی اعتبار سے مرکزی ایف آئی سے مختلف نہیں کیوں کہ شعبہ سائبر کرائم برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کے تحت کام کرتا ہے۔

انہوں نے کمیٹی کو وضاحت دی کہ ایف آئی کے شعبہ سائبر کرائم کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے، جس پر قائمہ کمیٹی نے ایف آئی اے کے شعبہ سائبر کرائم کو درپیش مسائل کو اٹھانے پر اتفاق کیا۔


یہ خبر 5 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں