جامعہ حفصہ کی طالبات نے عورت مارچ سے متعلق وال چاکنگ کی ’ذمہ داری قبول‘ کرلی

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2020
امِ حسان کا کہنا تھا کہ وہ اسی روز ’حیا مارچ‘ کے نام سے ’جوابی مارچ شروع‘ کریں گے —فائل فوٹو: ایلمراہ بہرامی
امِ حسان کا کہنا تھا کہ وہ اسی روز ’حیا مارچ‘ کے نام سے ’جوابی مارچ شروع‘ کریں گے —فائل فوٹو: ایلمراہ بہرامی

اسلام آباد: جامعہ حفصہ کی طالبات نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے جی-7 میں عورت آزادی مارچ کے حوالے سے وال چاکنگ کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

اس کے علاوہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) کو ارسال کردہ 2 درخواستوں میں بھی مارچ کے حوالے سے دھمکیاں دی گئی ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان نے مارچ کو روکنے کے منصوبے کا بھی اعلان کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک ویڈیو میں امِ حسان کا کہنا تھا کہ وہ اسی روز ’حیا مارچ‘ کے نام سے ’جوابی مارچ شروع‘ کریں گی لیکن ان کے شرکا حجاب میں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: شرپسندوں نے 'عورت مارچ' کے پوسٹرز پھاڑ دیے

دوسری جانب سیکریٹری جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری محمد طارق نے دارالحکومت انتظامیہ پر اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ 8 مارچ کو ہونے والا عورت آزادی مارچ روک دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر مارچ ہوا تو ہم چپ نہیں بیٹھے رہیں گے بلکہ انہیں اسلام اور پاکستانی ثقافت کے حقیقی رنگ دکھانے کے لیے اپنے لوگوں کو سڑکوں پر لائیں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ عورت آزادی مارچ کے مقام پر ہی صبح 10 بجے اپنا ’عورت مارچ‘ کریں گے۔

دوسری جانب ’جامعہ حفصہ کی طالبات‘ کا دستخط کردہ ایک بیان جاری کیا گیا جس میں وال چاکنگ کی ذمہ داری قبول کی گئی حالانکہ اس سے قبل لال مسجد کے مولانا نے تصدیق کی تھی کہ کالعدم اہلِ سنت والجماعت کے اراکین نے مولانا عبدالعزیز کی حمایت سے وال چاکنگ کی۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ نہیں اس پر پابندی کی بات کرنے والوں کی سوچ فحش ہے، حناجیلانی

طالبات کے بیان میں کہا گیا کہ شرعی اصولوں کے تحت ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عمل کو روکیں جسے انہوں نے ملک میں فحاشی کے فروغ کی سازش قرار دیا۔

بیان میں مارچ میں شرکت سے روکنے کی دھمکی بھی دی گئی اور کہا کہ دارالحکومت کے شہریوں کو چاہیے کہ مارچ کے حمایتیوں کو اپنے علاقوں سے باہر نکال دیں۔

اس ضمن میں آئی سی ٹی انتظامیہ کے پاس ایک درخواست نیشنل پریس کلب کے قریب قائم جامعہ محمدیہ کے منتظم علامہ تنویر علوی اور دوسری شہدا فاؤنڈیشن پاکستان کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے دی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ تقریب عورت آزادی مارچ کے حمایتیوں اور اس کے مخالف کے درمیان جھڑپ کا باعث بن سکتی ہے۔

تاہم تینوں گروپس نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ بزور طاقت مارچ کو روکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

اس حوالے سے علامہ تنویر علوی کا کہنا تھا کہ ’ہم خواتین کے حقیقی مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسائل حل ہوں لیکن جو لوگ یہاں یورپی ثقافت اور فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں انہیں پاکستانیوں کی اکثریت ناپسند کرتی ہے‘۔

دوسری جانب مارچ میں کسی قسم کی جھڑپ کو روکنے کے منصوبے کے حوالے سے آئی سی ٹی انتظامیہ کے حکام نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

اس حوالے سے عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عمار راشد نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عورت مارچ کو ڈی ریل کرنے کی منظم مہم کا حصہ ہے جو گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہے اور تمام مذہبی گروہ اس میں کود پڑے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ عورت مارچ کے لیے پولیس نے کلیئرنس دے دی ہے لیکن ابھی تک دارالحکومت انتظامیہ کی جانب سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) موصول نہیں ہوا، ہمیں امید ہے کہ وہ آج (جمعرات کو) مل جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں