جج ویڈیو اسکینڈل: شاہد خاقان، احسن اقبال، خواجہ آصف ایف آئی اے میں طلب

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2020
مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویڈیو مسلم لیگ (ن) کے ایک ہمدرد نے ریکارڈ کی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویڈیو مسلم لیگ (ن) کے ایک ہمدرد نے ریکارڈ کی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں کو آئندہ ہفتے طلب کرلیا۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے علاوہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں 9 اور 10 مارچ کو طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں شاہد خاقان عباسی کو 9 مارچ کو اسلام آباد میں ایف آئی اے کے دفتر جانا ہوگا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دیگر 2 رہنماؤں کو 10 مارچ کو پیش ہونے کے نوٹسز ارسال کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل تحقیقات: ایف آئی اے نے مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں کو طلب کرلیا

واضح رہے کہ یہ تینوں رہنما مسلم لیگ (ن) کے ماڈل ٹاؤن سیکریٹریٹ میں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے 6 جولائی کو کی گئی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے جس میں انہوں نے ’خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی‘ ویڈیو چلائی تھی۔

مذکورہ ویڈیو میں احتساب عدالت کے اس وقت کے جج مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنے گئے تھے کہ انہیں العزیزیہ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا دینے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔

اس وقت مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویڈیو ’مسلم لیگ (ن) کے ایک ہمدرد‘ نے ریکارڈ کی ہے۔

خیال رہے کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اپنی جماعت کی تنظیم نو کے معاملات کی وجہ سے 2 روزہ دورے پر کراچی آئے تھے۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں ایف آئی اے کی پرویز رشید سے تفتیش

قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید، ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا تارڑ اور عظمیٰ بخاری، ایف آئی اے کے انسداد دہشت گرد ونگ کے سربراہ بابر بخت کی سربراہی میں 3 رکنی ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواچکے ہیں، یہ ٹیم جج کی جانب سے ویڈیو میں رد و بدل کی شکایت کی تفتیش کر رہی ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں لاہور میں ایف آئی اے کی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بعد سینیٹر پرویز رشید نے کہا تھا کہ انہوں نے تفتیش کاروں سے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروائیں جس میں انہوں نے دباؤ میں آکر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ملز ریفرنس میں سزا سنانے کا اعتراف کیا تھا۔

پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک کھلا کیس ہے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ویڈیو کس نے بنائی تفتیش کی ضرورت نہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: ملزم کا جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے کا اعتراف

انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) عدالت میں ثبوت پیش کرنے پر بھی یقین رکھتی ہے تاہم پارٹی رہنماؤں نے اپنے قائد کی بے گناہی کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی تھی۔

اسی طرح عطا تارڑ نے ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہونے کے بعد رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کچھ ماہ پہلی ہی جوابات جمع کرواچکے تھے اور ایف آئی اے نے صرف ان سے مریم نواز کی پریس کانفرنس میں موجودگی کے بارے میں سوال و جواب کیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ جج سے ان کی اس ویڈیو کے بارے میں تفتیش کیوں نہیں کی گئی اور حکومت ویڈیو ٹیپس کا فرانزک آڈٹ کروانے سے کیوں گریزاں ہے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ ایف آئی اے پہلے ہی عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کرواچکی تھی لیکن جب سے واجد ضیا نے ایف آئی اے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا انہوں نے اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو طلب کرنا شروع کردیا۔

خیال رہے کہ واجد ضیا وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے پاناما کیس میں نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے تھے جس کے نتیجے میں نواز شریف کو اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل ہے کیا؟

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

بعد ازاں احتساب عدالت اسلام آباد کے سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں