اسلام آباد ہائیکورٹ نے ’عورت مارچ’ رکوانے کی درخواست خارج کردی

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2020
خواتین نے 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
خواتین نے 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے لیے دائر کی گئی شہریوں کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے عمران جاوید عزیز، محمد ایوب انصاری، امیر زیب، قاری سہیل احمد فاروقی، محمد اجمل عباسی، عبدالوحید، بشیر احمد اور میر اویس خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے سہیل اکبر چوہدری، راجا شجاعت علی اور حافظ محمد مظہر سمیت دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزاروں نے ایک روز قبل ہی پاکستانی آئین کی مختلف شقوں اور مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں ’عورت مارچ‘ کو غیر قانونی اور غیر مذہبی قرار دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اسے روکنے کا حکم سنائے۔

یہ بھی پڑھیں: آئین و قانون کے مطابق ’عورت مارچ‘ کو روکا نہیں جا سکتا، عدالت

درخواست میں وزارت داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں گزشتہ سال کے ’عورت مارچ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مارچ میں نامناسب بینرز اور نعروں سے فحاشی پھیلتی ہے اور مارچ غیر قانونی اور غیر مذہبی ہے۔

عدالت کے مطابق ضروری ہے کہ عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھا جائے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت کے مطابق ضروری ہے کہ عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھا جائے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

عدالت نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے 6 مارچ کو سماعت کی جس میں درخواست گزاروں کے وکیل پیش ہوئے، جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار خواتین کے حقوق نہیں بلکہ ’عورت مارچ‘ کے خلاف ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت کو استدعا کی کہ وہ غیر قانونی طور پر ہونے والے عورت مارچ کو روکنے کا حکم دے۔

درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’درخواست گزار قبل از وقت اس عدالت سے ریلیف مانگ رہے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’توقع ہے کہ عورت مارچ کے شرکا شائستگی برقرار رکھتے ہوئے آئینی حق استعمال کریں گے‘۔

عدالت نے 8 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید لکھا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا اعلان کیا گیا ہے اور ’عورت مارچ کے شرکا ان کے ارادوں پر شک کرنے والوں کو اپنے عمل سے غلط ثابت کریں‘۔

عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا اور نماز جمعہ سے قبل ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں کئی دیگر اسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے، عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست گزار تمام اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ نہیں اس پر پابندی کی بات کرنے والوں کی سوچ فحش ہے، حناجیلانی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عورتوں کے نعرے وہی ہیں کہ ’جو اسلام نے انہیں حقوق دیے وہ دیے جائیں‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواتین نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اسلام میں دیے گئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں، جب پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی بات واضح کردی تو ہم کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں اور ان کے نعروں کی کیا ہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج پورے میڈیا میں ان کی کل کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ خاتون تھیں۔

عالمی یوم خواتین پر کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں عورت مارچ ہوں گے—فوٹو: ٹوئٹر
عالمی یوم خواتین پر کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں عورت مارچ ہوں گے—فوٹو: ٹوئٹر

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ہم کتنی خواتین کو وراثتی حقوق دے رہے ہیں اور آپ اپنے طور پر ان کے سلوگنز کی تشریح کیسے کر سکتے ہیں؟

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ نہ مارچ کے خلاف ہیں نہ عورتوں کے حقوق کے خلاف ہیں، عدالت حکم دے کہ مارچ میں جو کچھ ہو وہ آئین و قانون اور اسلام کے دائرے میں ہو۔

وکیل کی وضاحت پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ضروری ہے کہ آپ اس عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں۔

چیف جسٹس نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اگر 8 مارچ کو کچھ بھی خلاف قانون ہوتا ہے تو عدالت قانونی کارروائی کرے گی۔

بعد ازاں عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے عورت مارچ کو رکوانے کی درخواست نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں بھی عورت مارچ کو رکوانے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو روکا نہیں جا سکتا‘۔

ساتھ ہی عدالت نے ضلعی انتظامیہ، پولیس اور مارچ منتظمین کو ہدایت کی تھی کہ مارچ میں کسی طرح کے غیر اخلاقی سلوگن نہیں ہونے چاہیئیں۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کی ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے بیانات کی مذمت

خیال رہے کہ خواتین رہنماؤں نے لاہور سمیت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور پاکستان میں گزشتہ 2 سال سے ان مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

زیادہ تر افراد کو عورت مارچ کے بینرز پر اعتراض ہوتا ہے—فائل فوٹو: ہیرالڈ میگزین
زیادہ تر افراد کو عورت مارچ کے بینرز پر اعتراض ہوتا ہے—فائل فوٹو: ہیرالڈ میگزین

اس سال ’عورت مارچ‘ شروع ہونے سے قبل ہی اس پر بحث شروع ہوگئی ہے اور جہاں کئی افراد اس مارچ کی حمایت کر رہے ہیں، وہیں کچھ افراد اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔

عورت مارچ کی حمایت کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ’عورت مارچ‘ خواتین کی خودمختاری اور حقوق کے لیے اہم قدم ہے جب کہ اس کی مخالفت کرنے والے افراد کا مؤقف ہے کہ یہ مارچ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے، خواتین کو بے راہ روی اختیار کرنے اور فحاشی پھیلانے کا سبب ہے۔

گزشتہ سال پہلی مرتبہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ’عورت مارچ‘ منعقد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہوئی تھیں اور ان مارچ میں شامل خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے بینرز پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں کچھ بینرز پر مختلف طقبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے تنقید بھی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں