پاکستان میں کورونا وائرس کے مصدقہ 28 کیسز ہیں، ظفر مرزا

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2020
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے آگاہ کیا گیا—فوٹو:پی آئی ڈی
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے آگاہ کیا گیا—فوٹو:پی آئی ڈی

وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 28 ہوگئی ہے، مزید 7 کیسز تفتان میں سامنے آئے ہیں۔

اسلام آباد میں دیگر معاونین خصوصی فردوس عاشق اعوان اور ڈاکٹر معید یوسف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا کہ حکومت صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کےکنفرم 28 کیسز ہیں، پہلے 21 کیسز تھے لیکن دیگر 7 کیسز تفتان میں ایران سے آئے ہوئے افراد ہیں، ایک بچے کا ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت آیا اور ان کے ساتھ ایک خاتون کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا’۔

مزید پڑھیں:پی ایس ایل کے لاہور میں بقیہ میچز بھی شائقین کے بغیر کروانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ وہاں پر ایک اور خاتون کو ذیابیطس کا مسئلہ تھا ان کا بھی ٹیسٹ کیا گیا، اس کے علاوہ دیگر افراد کا بھی ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد انہیں آئیسولیشن میں رکھا گیا اور ہسپتالوں تک پہنچادیا گیا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نے تفتان میں ایک لیبارٹری بھی قائم کی ہے جہاں ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

تشخیصی کٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم مخصوص کٹس کی تعداد میں بتدریج اضافہ کر رہے ہیں اور اس وقت مطلوبہ تعداد موجود ہے اور لیبارٹریوں میں بھی سہولت کو بتدریج وسیع کررہے ہیں اور مزید اضافہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نجی سطح پر چند افراد نے کٹس حاصل کی ہیں لیکن یہ معیاری کٹس نہیں ہیں جو پی سی آر کے معیار کے مطابق نہیں ہیں، بعض ادارے سستے اور سطحی ٹیسٹ کر رہے ہیں اس سے اجتناب کی ضرورت ہے اور لیبارٹریوں کو ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے نوٹس بھی جاری کریں گے اور انتباہ بھی کیا جائے گا۔

ظفر مرزا نے کہا کہ سرکاری سطح پر حاصل کی گئیں کٹس پر کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا ہے اور یہ مفت ہیں۔

قومی سلامتی کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ کمیٹی نے اعلیٰ سطح کی قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا میں کنوینر ہوں گا اور میں نے ہفتے کو پہلا اجلاس طلب کر لیا ہے، اس کمیٹی کو تشکیل دیا جانا اس لیے ضروری تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔


قومی سلامتی کمیٹی کے اہم فیصلے:

1- اعلیٰ سطح کی قومی رابطہ کمیٹی کی تشکیل

2- افغانستان اور ایران کے ساتھ مغربی بارڈر 2 ہفتے کے لیے مکمل بند

3- صرف 3 ایئرپورٹس سے بین الاقوامی پروازوں کی اجازت

4- عوامی اجتماعات پر پابندی عائد

5- شادی کی تقاریب پر دو ہفتے کی پابندی عائد

6- تمام تعلیمی ادارے 3 ہفتے بند رہیں گے

7- چیف جسٹس سے کچہریوں کو 3 ہفتوں کے لیے بند کرنے کی درخواست

8- وائرس کی آگاہی کے لیے میڈیا پر مہم

9- پاکستانیوں کے کرتارپور راہداری جانے پر پابندی

10 - تین ہفتے کے لیے جیلوں میں قیدیوں سے ملاقات پر پابندی

11- سنیما گھروں، کانفرنسز پر پابندی

12- 23 مارچ کی تقریب منسوخ


انہوں نے کہا کہ چمن کا بارڈر ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کردیا گیا، قومی رابطہ کمیٹی اس فیصلے کا جائزہ لے گی، طورخم سمیت مغربی سرحد کو بند کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:'2 ہزار پاکستانی تفتان میں14 دن تک قرنطینہ کے بعد ملک میں داخل ہوں گے'

ان کا کہنا تھا کہ تفتان میں ایران سے زیارت کے بعد آنے والے افراد کو سرحد پر ہی 14 دن کے لیے قرنطینہ کے لیے رکھ دیں گے، اس کے لیے باریک بینی سے نظام بنایا گیا ہے کہ تمام زائرین کو مخصوصی بسوں کے ذریعے صوبائی حکومتوں کے حوالے کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں ان کے حوالے سے مزید فیصلہ کریں گی کہ قرنطینہ کرنا ہے یا نہیں اور وفاقی حکومت ان سے ہر موقع پر تعاون کرے گی۔

انہوں نے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں ایک اور اہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف 3 ایئر پورٹس میں بین الاقوامی پروازوں کی اجازت ہوگی جن میں لاہور، کراچی اور اسلام آباد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ایئرپورٹس کو مخصوص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں انتظامات ہوں گے، اس پر بھی رابطہ کمیٹی جائزہ لے گی اور وقتاً فوقتاً فیصلے کیے جائیں گے۔

بڑے عوامی اجتماعات پر پابندی

ظفر مرزا نے کہا کہ حکومت پاکستان حفاظتی اقدامات کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر رہی ہے، ہوسکتا ہے کہ بعض اجتماعات کے حوالے سے اچھا نہ گلے لیکن حفاظتی اقدامات ضروری ہیں اس لیے بڑے اجتماعات پر پابندی ہوگی۔

اجتماعات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل سب سے بڑا اجتماع ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان میچوں کو خالی میدانوں میں کروایا جائے گا اور شائقین گھروں میں بیٹھ کر دیکھیں گے، اس طرح کے اقدامات دنیا میں بھی کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے اجتماعات کا جائزہ لیا تو شادیوں کے اجتماعات ہوتے ہیں اس لیے شادی ہالوں میں شادی کی تقاریب پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ پابندی دو ہفتوں کے لیے ہے جس کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس حفاظتی اقدامات: پارلیمانی سرگرمیوں کو بھی محدود کردیا گیا

ظفر مرزا نے کہا کہ سنیما میں پابندی ہوگی وہاں ٹکٹوں کی فروخت نہیں ہوگی، کانفرنسز پر بھی پابندی عائد کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہبی اجتماعات ایک حساس معاملہ ہوتا ہے اس لیے بڑی حکمت سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ہیں، سلامتی کمیٹی نے مذہبی امور کے وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان اجتماعات میں جائیں اور ان سے گفتگو کریں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ تمام تعلیمی ادارے چاہے وہ اسکول، کالج، یونیورسٹی یا ٹیکنیکل ادارے ہیں ان سب کو کل سے بند کیا جارہا ہے، اسکول فی الحال 3 ہفتوں کے لیے بند کیے جارہے ہیں اور رواں ماہ کے آخر تک کمیٹی بیٹھے گی اور جائزہ لے گی اور مزید فیصلے کرے گی۔

عوامی اجتماعات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں اور کچہریوں میں بھی عوام جمع ہوتے ہیں اور اس حوالے سے چیف جسٹس سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کیں اور کچہریوں کو 3 ہفتوں کے لیے بند کرنے کی درخواست کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی اس حوالے سے ہدایات جاری کریں گے، سیشن کورٹ کے جج خود جیلوں میں جائیں گے اور لوگوں کے فیصلے کریں گے۔

جیل میں قیدیوں سے ملاقات کرنے والے افراد کو پابند کر رہے ہیں اور انہیں جیلوں میں ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔

میڈیا مہم شروع کرنے کا اعلان

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ پاکستانی اس کورونا وائرس کے مرض کو سمجھیں کہ اس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچا سکتا ہے، اگر ہم تمام احتیاطی تدابیر کرپائیں تو مؤثر طریقے سے پاکستان میں اس بیماری کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مسلم لیگ (ن) کا کورونا وائرس پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میڈیا مہم شروع کررہے ہیں جس میں تمام ذرائع کو استعمال کیا جائے گا اور علاقائی زبانوں میں اس کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کی بروقت اطلاع کے لیے مرکزی سینٹر بنائیں گے، تمام وزرائے اعلیٰ کو بھی آگاہ کیا جائے گا اور میں خود یہ خبریں پہنچایا کروں گا۔

ظفر مرزا نے کہا کہ تمام میڈیا ادارے صحافتی اخلاقیات کا خیال رکھیں، مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی ذاتی معلومات کو ٹی وی پر لایا جاتا ہے اس سے گریز کریں، جتنا چیلنج حکومت کو ہے اتنا ہی چیلنج میڈیا کو بھی ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اس لیے موجود تھے کہ ایک صفحے پر نظر آنا تھا کیونکہ یہ تاثر دیا گیا تھا کہ متحد نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ قومی ایمرجنسی کا نفاذ نہیں ہوا ہے اور وزیراعظم کا پیغام یہی تھا کہ خوف نہیں پھیلایا جائے، اس سے ہم سب کا نقصان ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج تفتان سرحد کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی تصاویر غلط ہیں، کرتارپور راہداری کے حوالے سے فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستانیوں کے جانے پر پابندی ہوگی، بندرگاہیں کھلی رہیں گی۔

'فیصلوں پر فوری عمل درآمد ہوگا'

معید یوسف نے کہا کہ تمام فیصلوں پر فوری طور پر عمل درآمد ہوگا اور کوئی تاخیر ہیں ہوگی، ان فیصلوں پر باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی پلان کے لیے وزارت سیکیورٹی فوڈ کو بھی حصہ بنائیں گے تاکہ اس حوالے سے کوئی کمی بیشی نہ ہو۔

مزید پڑھیں:سندھ میں تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو خدارا سیاست کا شکار نہ بنائیں اور مل کر اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

ایک سوال پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 23 مارچ کے حوالے سے تقریبات منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے تفصیلات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال اور نئے کیسز کی تعداد جاننے کے لیے ایک خصوصی پورٹل کا اجرا بھی کردیا گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس

  • پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا۔

  • 26 فروری کو ہی معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مجموعی طور پر 2 کیسز کی تصدیق کی۔

  • 29 فروری کو ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مزید 2 کیسز کی تصدیق کی، جس سے اس وقت تعداد 4 ہوگئی تھی۔ 3 مارچ کو معاون خصوصی نے کورونا کے پانچویں کیس کی تصدیق کی۔

  • 6 مارچ کو کراچی میں کورونا وائرس کا ایک اور کیس سامنے آیا، جس سے تعداد 6 ہوئی۔

  • 8 مارچ کو شہر قائد میں ہی ایک اور کورونا وائرس کا کیس سامنے آیا۔

  • 9 مارچ کو ملک میں ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے 9 کیسز کی تصدیق کی گئی تھی۔

  • 10 مارچ کو ملک میں کورونا وائرس کے 3 کیسز سامنے آئے تھے جن میں سے دو کا تعلق صوبہ سندھ اور ایک کا بلوچستان سے تھا، جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 19 جبکہ سندھ میں تعداد 15 ہوگئی تھی۔

بعد ازاں سندھ حکومت کی جانب سے یہ تصحیح کی گئی تھی 'غلط فہمی' کے باعث ایک مریض کا 2 مرتبہ اندراج ہونے کے باعث غلطی سے تعداد 15 بتائی گئی تھی تاہم اصل تعداد 14 ہے، اس تصحیح کے بعد ملک میں کورونا کیسز کی تعداد 10 مارچ تک 18 ریکارڈ کی گئی۔

  • 11 مارچ کو اسکردو میں ایک 14 سالہ لڑکے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، جس کے بعد مجموعی تعداد 19 تک پہنچی تھی۔

  • 12 مارچ کو گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں ہی ایک اور کیس سامنے آیا تھا جس کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز کی تعداد 20 تک جاپہنچی تھی۔

    -13 مارچ کو اسلام آباد سے کراچی آنے والے 52 سالہ شخص میں کورونا کی تصدیق کے بعد تعداد 21 ہوئی تھی۔

بعدازاں اسی روز ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران تفتان میں مزید 7 کیسز سامنے آنے کی تصدیق کی اور کہا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 28 ہوگئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں