کراچی: ضرورت سے زیادہ آٹا خریدنے سے قلت، قیمتوں میں اضافہ

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2020
چھوٹے تاجروں نے بتایا کہ انہیں ایک ہفتے کے تعطل کے فرق سے آٹے کی سپلائی مل رہی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
چھوٹے تاجروں نے بتایا کہ انہیں ایک ہفتے کے تعطل کے فرق سے آٹے کی سپلائی مل رہی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں شہریوں کو مختلف اقسام خصوصاً برانڈڈ آٹے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دکاندار اجناس کی کمی کا بتاتے ہیں یا آٹے کی من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چاول، دالیں، چینی، گھی، کوکنگ آئل، چائے کی پتی اور دودھ وغیرہ کے مقابلے میں آٹے کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

مذکورہ حالات کا ذمہ دار متمول (صاحب حیثیت) افراد کو قرار دیا جارہا ہے جنہوں نے لاک ڈاؤن کی اطلاعات کے پیش نظر اپنے گھروں میں آٹے و دیگر اشیا خرید کر ذخیرہ کرلیں۔

ایسے صارفین نے سپر اسٹورز اور بڑی مارکیٹس سے زیادہ سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدیں جبکہ یومیہ یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد صرف کچھ دنوں کا کھانے پینے کا انتظام ہی کرسکے۔

تمام صورتحال سے متعلق مختلف علاقوں میں موجود چھوٹے تاجروں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ہفتے کے تعطل سے آٹے کی سپلائی مل رہی ہے، ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ متعدد ملز نے جان بوجھ کر مارکیٹوں میں آٹے کی سپلائی روک دی۔

انہوں نے بتایا کہ ملز اپنے آٹے کی فراہمی براہ راست دکانداروں کو کر رہی ہیں تاکہ نقد وصولی ہوسکے۔

اس کے علاوہ کچھ دکانداروں نے اپنی دکانوں پر آٹے کے تھیلے رکھنے کے باوجود نئے صارفین کو آٹا فروخت کرنے سے انکار کیا اور اپنے پرانے گاہکوں کو پہلے ترجیح دی۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹے کی فراہمی کے لیے انہیں دن میں کئی مرتبہ ملز اور ان کے تقسیم کاروں کو فون کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہ محدود فراہمی کرنے کے لیے بھی ایک ہفتے کا وقت لے رہے ہیں۔

تاہم ریٹیلرز کا کہنا تھا کہ بہت سے صاحب حیثیت افراد نے اپنے گھروں میں آٹے کا ذخیرہ کرلیا ہے جو عید الفطر تک کام آسکتا ہے۔

دوسری جانب تمام صورتحال کے باعث آٹے کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود صوبائی اور شہری حکومتیں نوٹس لینے میں ناکام ہیں۔

غیرمعمولی خریداری ختم کرنے کا مطالبہ

ادھر پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (سندھ زون) کے ایک ممبر نے بتایا کہ ملز دن رات نئی گندم پیس رہی ہیں لیکن وہ خریداروں کی بڑی مانگ کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ہر مل کی ایک مخصوص پیداواری صلاحیت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ایسا خاندان جس کے آٹے کی ضرورت ہر مہینے میں 10 سے 20 کلوگرام ہوتی ہے وہ 40 سے 60 کلوگرام آٹا خرید چکا ہے جو اگلے تین ماہ تک کافی ہے۔

انہوں نے صارفین کو غیرمعمولی خریداری سے منع کیا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے تنخواہ دار افراد جن کی آمدنی عام طور پر ہر ماہ کے آخری دنوں میں ختم ہوجاتی ہے، انہوں نے بھی ضرورت سے زیادہ آٹا خرید لیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ گندم کی قیمتوں میں معمولی اضافے کے باوجود ملرز نے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں