لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

مہلک ایبولا وائرس اس قدر خطرناک ہے کہ جس کو بھی لگ جائے تو اسے سفر کی اجازت ہی نہیں دیتا اور یوں یہ تیزی سے نہیں پھیل پاتا، لیکن اس کے برعکس کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے اور یہ صحت مند اور بیمار میزبانوں میں یکساں انداز میں پھیلتا ہے۔ یہ وائرس صنفی، نسلی اور طبقاتی امتیاز سے بالاتر ہوکر ہر ایک پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

کورونا وائرس کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ میں معاونت کے لیے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل امیر ملکوں سے 2 کھرب ڈالر دینے کی درخواست کر رہے تھے، یہ کم و بیش اتنی ہی رقم ہے جتنی امریکا کے مطابق فقط انہیں ہی مطلوب ہے۔

سیکرٹری آنتونیو گوترش نے جی20 اجلاس سے قبل دولت مند ملکوں پر یہ واضح کیا کہ 'اس آفت نے یہ بات آشکار کردی کہ ہمارا کمزور ترین نظامِ صحت جتنا زیادہ مضبوط ہوگا ہم اتنا ہی زیادہ مضبوط قرار پائیں گے'۔ انہوں نے تجویز دی کہ 'یہ تفریق کا نہیں بلکہ یکجہتی کا وقت ہے'۔

چلیے اب رخ کرتے ہیں ممبئی کا۔

'ہم کنگال ہوچکے ہیں۔ رات گزارنے کے لیے نہ چھت ہے نہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ ہے اور نہ ہی کوئی کھانے کی چیز خریدنے کے پیسے ہیں۔ سیٹھ نے ہماری دہاڑیاں روک دی ہیں'، یہ الفاظ اس لاچار ٹرک ڈرائیور نے ممبئی میں انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے جو ہزاروں میل دُور اتر پردیش میں واقع اپنے آبائی شہر لوٹنا چاہتا تھا۔

یہ خواہش دو دھاری تلوار کی ہی طرح ہے کہ اگر پوری ہو تو بھی مسئلہ اگر نہ ہو تو بھی مسئلہ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ان ٹرک ڈرائیوروں نے پورے بھارت میں لاکھوں مہاجر محنت کشوں کو لاحق بحران وضاحت کے ساتھ بیان کردیا۔

لفظ ’سیٹھ‘ عام طور پر کئی تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے اس کے معنی مالک یا ملازمت پر رکھنے والے شخص کے بھی ہوسکتے ہیں اور اس لفظ کو امیر آدمی سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ عمومی طور اس لفظ کو قرضہ دہندگان یا سرمایہ دار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے بھارتی شہروں میں محنت کش طبقے کو لاحق ایک پرانے مسئلے کو بیان کرنے کے لیے قرضہ دہندگان یا سرمایہ دار کے تناظر میں استعمال کیا تھا۔ اور انہوں نے یہ الفاظ کم از کم 6 دہائیاں پہلے قلم بند کیے تھے۔

'جتنی بھی بلڈنگیں تھیں، سیٹھوں نے بانٹ لی ہیں، فٹ پاتھ بمبئی کے، ہیں آشیاں ہمارا'

یہ سطور ساحر کی اس تلخ و ترش نظم کی ہیں جسے لکھ کر انہوں نے علامہ اقبال کی جانب سے بھارت کی شان میں لکھے جانے والے ترانے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ پر سوال کھڑا کیا تھا۔ اقبال نے یہ ترانہ 1947ء میں بھارت کی کلونیل ازم سے آزادی سے قبل لکھا تھا۔ ساحر نے اس تلخ حقیقت کو بیان کیا تھا جو نہرو کو وراثت میں ملی تھی۔

من موہن سنگھ نے غربت کی چکی کو توڑنے کا ایک نسخہ بیچا تھا۔ انہوں نے آزاد منڈی کو متعارف کروایا جس کے ثمرات سے بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) بلکہ حقیقی معنوں میں سیٹھ مستفیض ہوئے۔

دائیں بازو کی اس سیاسی جماعت کو سہارا دینے والے ارب ڈالر پتی شخصیات کی کوئی کمی نہیں۔ پارٹی کو چندہ دینے والوں میں چند اشخاص کے نام تو فاربس کی جاری کردہ امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی شامل رہ چکے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی (1830ء-1740ء) نے انہیں اپنی نظم ’بنجر نامہ‘ میں ایسے لوگوں کے طور پر بیان کیا ہے جنہیں محدود زندگی میں لامحدود دولت کی طلب ہوتی ہے۔

تقسیم پسند ڈونلڈ ٹرمپ اکیلے ہی ایسے شخص نہیں تھے جنہوں نے اس مرض کو اہمیت نہیں دی تھی۔ تاہم کورونا وائرس جانتا ہے کہ ناقدوں کو کس طرح گھٹنوں پر لایا جاتا ہے۔

بورس جانسن اسی نیشنل ہیلتھ اسکیم کے آگے گھٹنے ٹیکے منتیں کر رہے ہیں جس پر تنقید کرنے کا وہ کوئی موقع بھی نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ اس ملک کا نام تو سبھی جانتے ہوں گے جہاں کورونا وائرس کی پھوٹ کے بعد یعنی جنوری کے وسط سے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر آنے والے تمام ہی مسافروں کا بخار جانچنا شروع کردیا گیا تھا، یقیناً یہ ایک بہت ہی اچھا خیال تھا، اور وہ اسرائیل سمیت دیگر ملکوں کو جان بچانے والے وینٹی لیٹر فراہم بھی کرتا رہا۔

19 مارچ کو بھارت نے اپنی برآمدات پر اس وقت پابندی عائد کی جب بُرے کہے جانے والے راہول گاندھی نے ایک 'مجرمانہ سازش' کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس طرح بھارت میں اس مہلک پھوٹ کے خلاف زندگی اور موت کی لڑائی میں قیمتی ہفتے (اور وینٹی لیٹرز) کھو دیے گئے۔

پھر وزیرِاعظم کی جانب سے اچانک 21 روزہ لاک ڈاؤن کے حکم نے ان دنوں کے نقصان کو ایک ڈراؤنے خواب میں بدل دیا۔ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے چند قیمتی ہفتوں کو گنوانے والا ملک اگر ملک گیر لاک ڈاؤن سے پہلے لوگوں کو تیاری پکڑنے کے لیے 2 سے 3 دن دے دیتا تو یقیناً یہ آفت اس قدر بدترین روپ اختیار نہ کرتی اور لوگوں کے لیے کسی حد تک آسانی پیدا ہوجاتی۔ بالخصوص ان مہاجر محنت کشوں کے لیے جو اس وقت نادانستہ طور پر خود اپنے، اپنے خاندانوں اور ان سب کے لیے زبردست خطرہ بن گئے ہیں جن سے وہ ممکنہ طور پر ملاقات کرنے والے ہیں۔

وزیرِاعظم نریندر مودی نے اس بار بھی اپنی وہی روش اپنائی جو انہوں نے راتو رات 85 فیصد بھارتی کرنسی کی بندش کے موقعے پر اپنائی تھی۔ یہ فیصلہ معیشت اور بالخصوص غربا کے لیے ناگزیر آفت سے کم نہیں تھا۔

دہلی میں 3 دنوں کی مہلت نے اروند کیجریوال اور ان کے دیگر ساتھیوں کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ مطلوبہ سماجی دُوری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عارضی پناہ گاہوں اور کھانے پینے کا بندوبست کرلیں۔

اب دسیوں ہزار افراد اتر پردیش کی سرحد پر اس لیے جمع ہوگئے تھے کیونکہ وہاں کے وزیرِ اعلیٰ (کہ جنہوں نے ایودھیہ میں لاک ڈاؤن کی مذموم خلاف ورزی کی) نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان تمام لوگوں کو اپنے ہاں، بہار اور اتراکھنڈ لے آئیں گے، مگر اب تو بسیں ہی نہیں چل رہی جبکہ محض چند ہی مسافروں کے پاس ماسک یا سینیٹائزر تھے۔

غربا کو بطور سزا سڑکوں پر رینگتے دیکھنا بڑا ہی تلخ منظر ہوتا ہے جو کلونیل دور کے روالٹ ایکٹ کی یادیں تازہ کردیتا ہے۔ اور پھر حالات سے مجبور ہوکر شمال مشرقی ریاست کے وزیرِاعلیٰ کی جانب سے مطالبہ سامنے آتا ہے جس میں وہ وزیرِاعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھارتیوں کو روکیں، اس بات سے روکیں کہ وہ لوگوں کو مختلف دکھنے کی بنیاد پر بُرا بھلا نہ کہیں۔

نسل پرستی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ ایک ایسے وقت میں ایک بار پھر منظرِ عام آئی ہے جب کسی بھی قیمت پر اس کی لگام کو کس کر رکھنا چاہیے تھا۔ تو اس موقع پر بے چارے وزیراعظم کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اس پھوٹ (کورونا وائرس) کی روک تھام کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانے چاہئیں یا پھر انہیں اس گہرائی سے پیوست وائرس (نسل پرستی) کو باہر کھینچ نکالنا چاہیے جو ہر ایک کو مساوی انداز میں شکار بنا رہا ہے۔

آپ دائیں بازو کے گروہوں کو آفتوں کے دوران متاثرکن کام کرتے ہوئے ضرور دیکھ چکے ہوں گے۔ پاکستان میں جماعت اور بھارت میں شو سینا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ میں نے مہاراشٹریہ میں لاتور زلزلے کے بعد شو سینا کے کارکنان کو ننگے ہاتھوں سے گلتی سڑتی لاشوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں آندھرا پردیش کو نشانہ بنانے والے تباہ کن سائیکلون کے بعد آر ایس ایس کارکنان نے امدادی کاموں پر خوب داد وصولی۔

مگر کورونا وائرس کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اس آفت سے نمٹنے کے لیے فیڈل کاسترو کے جادوئی ڈاکٹروں، چین کے نظم و ضبط سے اپنا کام انجام دینے والے طبّی عملے اور کیریلا کے نہایت تجربے کار لوگوں کی ضرورت ہے۔

ان سب کے درمیان ایک بات جو عام ہے وہ بلند شرح خواندگی اور پھرپور عزم، جو ہمیں برطانیہ میں راتو رات بننے والی 4 لاکھ رضاکاروں پر مشتمل فوج میں نظر آتا ہے، جو کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔


یہ مضمون 31 مارچ 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

حبیب حسن Apr 01, 2020 12:33pm
پاکستان کا حال انڈیا سے بھی برا