وبا کے دنوں میں کس طرح پاکستانی غریبوں کی مدد کر رہے ہیں؟

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2020
مخیر حضرات گھروں سمیت سڑکوں پر بھی لوگوں کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
مخیر حضرات گھروں سمیت سڑکوں پر بھی لوگوں کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

متوسط طبقے اور کم آمدنی والے کروڑوں افراد کے ملک پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس سے بچنے کے لیے جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے، جس وجہ سے یہاں کے مزدور اور یومیہ بنیادوں پر روزگار کرنے والے افراد مشکلات کا شکار ہیں۔

اگرچہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے انکار کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان بھی قوم سے خطاب میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ملک کی 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے اور اگر لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو وہ لوگ وبا سے قبل بھوک سے مر جائیں گے۔

وزیر اعظم کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن سے انکار پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تاہم حقیقت یہ ہے کہ جزوی لاک ڈاؤن سے بھی بہت سارے مزدوروں اور یومیہ اجرت کی بنیاد پر روزگار کرنے والے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں اور ان کے گھروں میں اب فاقے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن ہونے کے بعد لاکھوں پاکستانی افراد اور متعدد ایسے ادارے متحرک ہوگئے ہیں جنہوں نے مزدوروں اور بے روزگار ہونے والے افراد کی مدد کرنا شروع کی اور اب تک ایسے کاموں کی وجہ سے ہی پاکستان میں لاک ڈاؤن کے باوجود کوئی بڑی مصیبت سامنے نہیں آئی۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جہاں فلاحی خیرات سب سے زیادہ دی جاتی ہے، پاکستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ مصیبت کے وقت اپنے ہی غریب ہم وطنوں کی مدد سے نہیں گھبراتے اور وہ ہر مصیبت کی گھڑی میں خود سے غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

اور اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں بھی پاکستانی ایسا ہی کر رہے ہیں اور وہ اپنی زکوۃ، صدقات اور خیرات سے دوسروں کی مدد کرکے اس 25 فیصد آبادی کی مدد کر رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک مضمون کے مطابق اگرچہ دنیا بھر کے 47 اسلامی ممالک کے افراد مذہبی احکامات کے مطابق زکوۃ خیرات ادا کرتے ہیں تاہم پاکستان کا شمار ان نصف درجن اسلامی ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں پر حکومتی سطح پر بھی زکوۃ کی وصولی کی جاتی ہے۔

مضمون میں بتایا گیا کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر زکوۃ کی وصولی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے آئین و قانون میں بھی اسلامی احکامات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

مضمون کے مطابق صرف مالی سال 2018 اور 2019 میں ہی بینکوں نے 8 ارب روپے کے قریب کی زکوۃ جمع کی تاہم بینکوں کے علاوہ لوگوں کی جانب سے دی جانے والی زکوۃ کی رقم اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

مضمون میں اعتراف کیا گیا کہ پاکستانی عوام مشکلات اور مالی مسائل کے باوجود فلاحی کاموں اور فلاحی امداد کے حوالے سے دنیا کے دولت مند ممالک کی طرح ہیں اور یہاں پر جی ڈی پی کی ایک فیصد رقم فلاحی امداد کے لیے دی جاتی ہے۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں فلاحی ادارے کے ارکان غذائی اشیا تقسیم کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں فلاحی ادارے کے ارکان غذائی اشیا تقسیم کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ پاکستان برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک کی طرح امیر نہیں ہے مگر یہاں پر امدادی کاموں کے لیے دی جانے والی یا خرچ کی جانے والی رقم ان ہی ممالک جتنی ہوتی ہے جو کہ ملک کی مجموعی جی ڈی پی کا ایک فیصد یا اس سے تھوڑی سے زائد ہوتی ہے۔

مضموں کے مطابق پاکستان میں امدادی کاموں کے لیے رقم خرچ کرنے اور وقت دینے کے حوالے سے کیے جانے والے ایک قومی سروے کے مطابق 98 فیصد لوگ ازخود فلاحی کاموں یا انسانیت پر خرچ کرنے کے لیے رقم دیتے ہیں اور جو لوگ رقم نہیں دے پاتے وہ ایسے کاموں میں ذاتی طور پر شرکت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رپورٹ میں متعدد تنظیموں اور ذاتی طور پر لوگوں کی مدد کرنےو الے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے نافذ کیے گئے جزوی لاک ڈاؤن کے بعد پاکستانی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے از خود غریبوں اور مزدوروں کی مدد کرنا شروع کردی اور عام طور پر رمضان المبارک میں دی جانے والی زکوۃ پہلے سے ہی دینا شروع کردی۔

مضمون میں متعدد تعلیمی اداروں کے اساتذہ، بینکاروں، صحافتی و نشریاتی اداروں میں کام کرنے والے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 15 دن میں لاک ڈاؤن کے دوران ایسے افراد نے ذاتی طور پر بھی 25 گھروں سے لے کر 400 گھروں تک راشن کے تھیلے تقسیم کیے جب کہ یہی کام متعدد فلاحی ادارے بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

مضمون کے مطابق پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر اور چھیپا سمیت اسی طرح کے دیگر اداروں نے بھی نہ صرف غریب افراد کے گھروں تک راشن کے تھیلے پہنچانے کا کام شروع کردیا ہے بلکہ انہوں نے کورونا کی وجہ سے کسی بھی مصیبت یا مسئلے کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے خصوصی نمبرز بھی جاری کردیے ہیں جن پر لوگ کسی وقت بھی رابطہ کرکے مدد مانگ سکتے ہیں۔

مضمون میں رابن ہڈ آرمی اور شہید سید رضا علی عابدی (سسرا) فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کا حوالہ بھی دیا گیا اور بتایا کہ کس طرح مذکورہ تنطمیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں تک محصور ہونے والے مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کی گھر بیٹھے مدد کر رہی ہیں۔

مضموں میں بتایا گیا کہ سسرا فاؤنڈیشن کی سربراہ نے بتایا کہ انہوں نے کچھ دن قبل ایک ایسے گھر میں راشن پہنچایا جس گھر کے 4 افراد 29 گھنٹوں سے فاقہ کشی کا شکار تھے۔

مخیر حضرات کی جانب سے غریبوں لوگوں کی مدد کرنے اور رمضان سے قبل ہی زکوۃ دینے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور لوگوں کے اس عمل کو غنیمت اور اچھا کام قرار دیا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جانب سے عام طور پر رمضان میں زکوۃ دی جاتی ہے مگر مشکل کی اس گھڑی میں مخیر حضرات کی جانب سے بے بس اور غریب انسانوں کی مدد کے لیے آگے آنا اس ملک کے لیے بہت بڑی غنیمت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں