اسلام آباد ہائیکورٹ نے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے کو غیر آئینی قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2020
عدالت نے قیدیوں کے لیے اس کا حل بھی پیش کیا کہ کہ وہ معاوضے کا مطالبہ کرسکتے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے قیدیوں کے لیے اس کا حل بھی پیش کیا کہ کہ وہ معاوضے کا مطالبہ کرسکتے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قید قیدیوں کی دائر درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنا غیر آئینی ہے اور یہ کہ قید کے دوران غیر انسانی سلوک پر قیدی حکومت اور جیل حکام کے خلاف مقدمہ کرسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے وفاقی حکومت اور اسلام آباد کے کمشنر کو جیل مینوئل کی دفعات کی پابندی اور قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی کنوینشنز اور معاہدوں کی پاسداری کرنے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ 38 صفحات کے فیصلے میں قیدیوں کے خطرناک حالات، نظامِ انصاف میں جھول اور قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی نشاندہی کی گئی۔

ساتھ ہی عدالت نے قیدیوں کے لیے اس کا حل بھی پیش کیا کہ کہ وہ معاوضے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم

فیصلے میں لکھا گیا کہ ’بگڑتے ہوئے مجرمانہ نظام انصاف کے زیادہ تر شکار وہ ہیں جو معاشرے کے معاشی اور سماجی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، نہ تو ان کے پاس عدالتوں تک رسائی کے ذرائع ہیں نہ حکومت نے ہر شہری کے لیے ’سستا اور فوری انصاف‘ فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بظاہر غیر فعال مجرمانہ نظام انصاف کے سب سے زیادہ شکار مقدمے سے پہلے اور مقدمے کے دوران قید کیے گئے وہ افراد ہیں جنہیں بے قصور سمجھا جاتا ہے لیکن متعدد عناصر کی وجہ سے ان کے ساتھ مجرم قیدیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ قیدیوں نے اپنی درخواست میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں عدالتوں تک رسائی حاصل نہیں اور انہیں اپنی حالات زار کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنے پر جیل انتظامیہ کی جانب سے سزا کا خوف ہوتا ہے۔

عدالت کے نوٹس پر قیدیوں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی ’چونکا دینے والی‘ رپورٹ جمع کروائی تھی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: اسلام آباد ہائی کورٹ کا 408 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کا حکم

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان بھر کی جیلوں میں 55 ہزار 634 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جن میں 74 ہزار رکھے گئے ہیں اس میں پنجاب میں 41 میں سے 29 جیلوں میں جبکہ سندھ میں تمام 8 جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی موجود ہیں۔

سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ قیدیوں میں سب سے بڑی تعداد ان افراد کی ہے جنہیں ایک فیئر ٹرائل کے بعد عدالت سے سزا ملنے تک ’بے قصور‘ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں قید 73 ہزار 721 افراد میں 60 فیصد سے زیادہ یعنی 44 ہزار 847 قیدیوں کو اب تک کسی عدالت سے سزا نہیں سنائی گئی۔

ایک اور خطرناک عنصر یہ ہے کہ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد سنگین بیماریوں مثلاً ایچ آئی وی، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اور ذہنی امراض کا شکار ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان بھر کی جیلوں میں مناسب طبی سہولیات، ڈاکٹرز اور طبی عملے کا فقدان ہے اور زیادہ تر قیدی بھی اپنے حقوق سے لاعلم ہیں اور ان کے پاس عدالتوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے

بنیادی انسانی ضروریات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹوائلٹس میں صفائی کی کمی اور تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کو گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ جیل ہسپتال میں عملے کی کمی اور مناسب آلات کا فقدان ہے اور بااثر افراد نظام کا استحصال کرتے ہوئے ضرورت کے بغیر ہسپتال میں داخل ہوجاتے ہیں اور جنہیں فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ جیل حکام کی بے حسی کا نشانہ بنتے ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قیدیوں کے داخلے، قید اور رہائی تک کے سلوک کے ہر پہلو کے حوالے سے مختلف بنیادی قانون سازی کے ساتھ ساتھ قواعد و ضوابط کے تحت جیلیں قائم کی گئیں اور ان کا انتظام کیا جارہا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ قیدیوں کے بارے میں ایسے درجنوں قوانین موجود ہیں جن کے مطابق جیل حکام اور متعلقہ حکومتیں قیدیوں کی رہائی کے لیے مختلف اقدامات کرسکتی ہیں اس میں ان کی سزا معطل کرنے اور آزاد کرنا بھی شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں