کراچی پریس کلب کا وسیع دالان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ کسی معاملے پر احتجاجی جلسہ تھا۔ ڈائس سے تقریریں ہو رہی تھیں، نعرے لگ رہے تھے، مگر میں سب سے لاتعلق ایک شخص کو دیکھے جارہا تھا۔ یہ میری بُری عادتوں میں سے ایک ہے، کوئی نظر کو بھا جائے تو اس پر نظریں جما دیتا ہوں۔ مرد عورت، بچے بوڑھے کی کوئی شرط نہیں، جو بھا گیا نظروں میں سما گیا۔

وہ شخص بھی میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ گندمی رنگ سے چھلکتی سرخی، سلیقے سے بنے ہوئے بال، جن میں سرمئی شام اور ڈھلتی دوپہر کی دھوپ کے رنگ ملے ہوئے، درمیانہ قد، گتھا ہوا کسرتی جسم تحرک اور توانائی سے بھرا۔ میرے لیے سب سے زیادہ جاذب نظر ذہانت سے دمکتی آنکھیں اور چہرے کا احاطہ کیے متانت تھی۔

‘وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے’ سنا تھا آج دیکھ بھی لیا۔ ’شاید یہ احفاظ الرحمٰن ہیں’ میرے اندر گمان نے یقین میں ڈھل کر سرگوشی کی، اور کچھ ہی دیر میں تصدیق ہوگئی، کس طرح؟ یہ اب یاد نہیں۔

احفاظ صاحب سے میرا پہلا تعارف ایک قاری کی حیثیت سے ہوا تھا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا جنم لے رہی تھی۔ نیویارک کی ٹوٹ بکھرتی عمارتوں کا ملبہ ہمارے سروں پر آگرا تھا۔ امریکا افغانستان پر ہلہ بولنے کو تھا۔ اور پرویز مشرف امریکا کا ساتھ دینے کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔

ایسے میں صورتحال پر دل گرفتہ ہم جیسے لوگوں کو احفاظ الرحمٰن کی صورت میں اپنی آواز مل گئی۔ روزنامہ جنگ کے صفحات پر ان کے تواتر سے شائع ہونے والے تفصیلی مضمون اور کاٹ دار نظمیں امریکی سامراج اور سی آئی اے کے کرتوتوں سے عام آدمی کو آگاہ کر رہی تھیں۔ ٹھوس حقائق اور منطقی استدلال لیے ان تحریروں میں ان کی ذہنی اور علمی استعداد ہی نہیں بولتی تھی، بلکہ لفظ لفظ میں شاعر کا حساس دل بھی دھڑکتا تھا۔ علمیت، جرأت، زباں دانی، تحقیقی مشقت، احفاظ صاحب کی تحریروں کی ہر ہر سطر میں ان کا کمال بولتا تھا، اور میں اس کمال کے جادو میں گرفتار ہوگیا۔

جب تک شہر صحافت میں قدم نہیں رکھا تھا میرے لیے ‘صحافی’ علم، دانش، بے پناہ ذہانت، دلیری اور دیانت کی صفات سے آراستہ گویا اقبال کے الفاظ میں ایک چھوٹا سا ‘پیغمبر بے جبرئیل’ تھا۔ میرے تصور میں صحافی کی یہ خصوصیات اس کی ظاہری شخصیت سے نمایاں ہوتیں تب کہیں جاکر میرے آئیڈیل صحافی کا سراپا مکمل ہوتا۔

اس تصور کے سامنے اپنی تصویر بس اپنی تحقیر ہی کا سامان کرتی اور صحافت میں آنے کی خواہش خواب بننے سے پہلے ہی سینے میں جان دے دیتی۔ لیکن جب قسمت ہاتھ کھینچتی اخبار کی دنیا میں لائی تو اس کامیابی کی قیمت ‘تصوراتی صحافی’ کی موت کی صورت میں چکانا پڑی۔ لے دے کر ایک محترم اطہر ہاشمی ہی کا ظاہر میرے آئیڈیل صحافی کا عکس تھا، مگر میں جسارت کے سٹی ڈیسک کا ایک ٹرینی رپورٹر اور وہ سفید قلموں میں طویل صحافتی سفر کی دھوپ سمیٹے نیوز ایڈیٹر تھے۔ پھر جسارت میں صرف 2 سال کا دورانیے میں، مَیں ان کی زوردار شخصیت سے مرعوب اور در دُور ہی رہا۔

اور جب احفاظ صاحب کو دیکھا اور جانا تو لگا جیسے مصور قدرت نے میرے خیالوں میں بنی صحافی کی تصویر اپنی تخلیقی ذکاوت کا تڑکا لگا کر نقل کردی ہے۔

احفاظ صاحب چین میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپس آئے تھے اور جنگ کے میگزین ایڈیٹر کا منصب سنبھال کر پاکستانی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد سے دوبارہ ناتا جوڑا تھا۔ اکثر کراچی پریس کلب میں نظر آتے۔ مجھے میرے سلام کا جواب ہی نہیں پوری توجہ بھی ملتی۔ میں نے اپنے شائع شدہ مضامین کا پلندہ انہیں پیش کیا۔ ان دنوں شاعری سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کرچکا تھا، سو اس پلندے میں کچھ نظمیں بھی تھیں۔

چینی ثقافتی انقلاب کے دوران احفاظ الرحمٰن چینی کسانوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے
چینی ثقافتی انقلاب کے دوران احفاظ الرحمٰن چینی کسانوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے

ڈرتے ڈرتے فائل ان کی طرف بڑھا کر کہا ‘سر! یہ میری کچھ تحریریں اور شاعری ہے۔ آپ دیکھ کر رہنمائی کریں اور غلطیاں بتائیں’، خوف تھا بعض سینئر صحافیوں کی طرح بدلحاظی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں ٹکا سا جواب نہ دے دیں، مگر ان کا ردِعمل انہی کی طرح مختلف تھا۔ ایک نوجوان تحریر کی اصلاح اور کچھ سیکھنے سمجھنے کا طلبگار تھا، یہ جان کر وہ خوشی سے کھل اٹھے۔ مجھے ان کی شفقت نے یہ حوصلہ دیا تھا کہ ان کے سامنے اپنے کچے پکے لفظوں کا ڈھیر لگا دوں۔

وہ ‘بڑے صحافی’ نہیں تھے کہ سلام کا جواب نخوت سے گردن ہلاکر دیتے اور ایک جونئیر صحافی کو لمحوں میں اوقات بتا دیتے۔ وہ بہت بڑے صحافی اور اس سے کہیں بڑے انسان تھے۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے، پوری اپنائیت سے حال چال پوچھتے، کسی مسئلے کی بابت بتایا جاتا تو پوری توجہ سے سنتے، کوئی موضوع چھڑ جاتا تو پوری وضاحت سے اس پر بات کرتے۔ کچھ روز بعد میرا پلندہ میرے ہاتھ میں تھا، حوصلہ بڑھاتے جملوں کے ساتھ۔

ان دنوں میں نوائے وقت میں تھا۔ برسوں سے تنخواہ کے لگے بندھے ہندسوں کو مقدر بنائے اور ٹرینی سب ایڈیٹر کا ‘تاج’ سجائے اتنا بیزار ہوگیا تھا کہ کسی چھوٹے سے اخبار سے بھی پیشکش آتی تو پَر کھول دیتا۔ ایک دن اُڑ کر ‘خبریں’ کی شاخ پر جا بیٹھا لیکن وہاں کے رنگ ڈھنگ ہی اور تھے۔ مالک کو چیف صاحب کہا جاتا جس کے آتے ہی سب اپنے اپنے کام چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے۔ ایسا لگتا کہ میں اخبار میں نہیں کسی مافیا میں آگیا ہوں۔ وہاں کہیں زیادہ تنخواہ کے باوجود طبیعت اُکتا گئی تھی۔

ایسے میں محترم یوسف خان کی زبانی نوائے وقت سے پیشکش ملی کہ میاں واپس آنا ہے تو اسی تنخواہ پر آجاؤ۔ واپسی ہوئی مگر اس بار ماحول بہت بدلا ہوا پایا۔ مایوسی اور بیزاری مزید بڑھ گئی۔ پھر ایک دن اندھیرے میں کرن یوں جاگی کہ میرا پورا وجود سنہرا کرگئی۔ میرے لیے فون کال تھی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف پورے ٹھیراؤ کے ساتھ ہر ہر لفظ دھیرج سے ادا کرتی آواز تھی ‘عثمان جامعی بات کر رہے ہیں؟‘

‘جی’

‘میں احفاظ الرحمٰن بات کر رہا ہوں’

یہ آواز آپ اپنا تعارف تھی لیکن صاحبِ آواز اس قرینے کے پابند تھے کہ نام بتایا جائے۔

احفاظ الرحمٰن دفتر میں
احفاظ الرحمٰن دفتر میں

انہوں نے مجھ سے میرے گھر کا فون نمبر لیا اور پھر رات کو مجھے کال کرکے ایکسپریس کے میگزین میں ملازمت کی پیشکش کردی۔ جانے کون سی نیکی میری دست گیری کو آگئی تھی۔ مجھے احفاظ صاحب کی ‘اقتداء’ میں فرائض کی ادائیگی کا موقع مل رہا تھا۔ اگلے روز رسمی سا انٹرویو ہوا اور دوسرے ہی دن میں ایکسپریس میگزین سیکشن کے کارواں میں شامل تھا۔ اب احفاظ صاحب سے روز کا تعلق تھا۔ ان کی شخصیت مجھ پر مزید کھلنے لگی اور اس کے ساتھ میری شخصیت نکھرنے لگی اور صلاحیتیں سنورنے لگیں۔

احفاظ صاحب کو دُور سے آتے دیکھنا ایک خوبصورت تجربہ ہوتا تھا۔ بازو شان سے تنے سینے سے کچھ دُور، مٹھیاں بند، ٹانگیں پھیلا کر دھیرے دھیرے اٹھتے اور زمین پر جمتے قدم، کیا جرنیلی چال تھی ہمارے احفاظ صاحب کی۔

مجھے یاد ہے اس دن بھی وہ اسی دھج سے آفس کی گیلری میں چلے آرہے تھے، چہرے پر طمانیت لیے دل آویز مسکراہٹ۔ ہم نے پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف کیے جانے والے ججز کی بحالی کی تحریک کے دوران کئی خصوصی صفحات نکالے تھے اور اس روز بھی ایک صفحہ شائع ہوا تھا اور صبح یہ اعلان لیے طلوع ہوئی تھی کہ برطرف جج بحال ہوگئے۔ ہم نے انگوٹھے اٹھا کر ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔

ججز بحالی کی تحریک ہو یا کوئی اور معاملہ، احفاظ صاحب کے لیے اکثر قومی اور ملکی معاملات پر خصوصی صفحات کی اشاعت اور مضامین لکھنے کا مقصد محض پیشہ ورانہ ذمے داری نبھانا اور رسم پوری کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے لیے یہ صحیح غلط اور ظلم و انصاف کا قضیہ ہوتا تھا جس میں سچ کے ساتھ کھڑا ہونا صحافی کا فرض تھا۔ وہ یہ فرض تاعمر ادا کرتے رہے۔

پرویز مشرف دور میں آزادی صحافت کی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے
پرویز مشرف دور میں آزادی صحافت کی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے

آج کی صحافت میں افواہ، خیال اور قیاس کو خبر اور واقعے کے طور پر پیش کرنے کا چلن عام یے۔ کوئی تحریر لکھتے وقت لکھنے والے کو پیش کردہ واقعات کی تصدیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ اس تحریر کو ایڈٹ کرنے والے کو مشکوک ترین مندرجات بھی تحقیق کی طرف مائل کرپاتے ہیں۔

مگر احفاظ صاحب کے سامنے برائے اشاعت آنے والی کسی تحریر میں شامل کوئی عبارت یا لفظ انہیں شک میں ڈال دے تو جب تک اس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق نہ ہوجائے تو وہ نہ خود چین سے بیٹھتے تھے اور نہ ہمیں بیٹھنے دیتے تھے۔ کبھی کسی لفظ کے صحیح ہجے دیکھنے کے لیے بھاری بھرکم لغت کھنگالی جا رہی ہے تو کبھی کسی واقعے، نام، تاریخ یا شعر کی کھوج میں گوگل پر ایک کے بعد دوسری سائٹ کھل رہی ہے اور فون پر فون کیے جارہے ہیں۔

میرے سامنے اشاعت کے لیے ایک مضمون آیا جس میں حاتم طائی کی صاحبزادی کو حضرت حسینؓ کی اہلیہ لکھا گیا تھا۔ میں نے احفاظ صاحب سے تصدیق چاہی۔ بس پھر کیا تھا وہ اور میں انٹرنیٹ پر تاریخ کے صفحے الٹنے لگے۔ آخر جب اس رشتے کے تاریخی طور ہر غلط ہونے کی تصدیق ہوگئی تب ہی یہ مضمون اشاعت کے قابل قرار پاسکا۔ وہ کوئی تحریر لکھتے یا نظم ہم ماتحتوں کو دکھاتے اور اگر ہم میں سے کوئی کسی غلطی کی نشاندہی کرتا یا صائب مشورہ دیتا تو یوں مسرت کا اظہار کرتے اور سراہتے کہ اصلاح اور رائے دینے والا شرمندگی میں ڈوب ڈوب جاتا۔

ان کے ساتھ کام کرکے پتا چلا کہ جس انسان کو ہم احفاظ الرحمٰن کے منفرد نام سے جانتے ہیں اس میں کئی انسان بستے ہیں۔ صحافی، شاعر، ادیب، استاد، لیڈر، منتظم اور مقرر اور سب کے سب اپنی تکمیل کے ساتھ ان سب پر ان کا استاد حاوی رہتا۔

سرطان ان کی آواز نگل گیا تو انہوں نے آلے کی مدد سے بات کرنا شروع کی جو بہت تکلیف دہ تھی—فوٹو: لکھاری
سرطان ان کی آواز نگل گیا تو انہوں نے آلے کی مدد سے بات کرنا شروع کی جو بہت تکلیف دہ تھی—فوٹو: لکھاری

وہ ہر لمحہ ہمیں کچھ سکھانے، سمجھانے اور بتانے کے لیے کوشاں رہتے۔ کون سا شعبہ تھا جو ان کی دسترس میں نہ ہو، سیاست، شاعری، ادب، شوبز، موسیقی، کھیل، حالاتِ حاضرہ سے باخبر تاریخ پر دُور تک نظر۔ جو موضوع اٹھاتے معلومات کا دھارا بہنے لگتا۔

میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے شاگردوں اور ساتھ کام کرنے والوں میں جاننے کا شوق جگا دیتے تھے۔ دفتر میں اور بعض اوقات ان کے ساتھ دفتر سے گھر تک کا سفر کرتے ہوئے مجھے کتنی ہی کتابوں، فلموں، واقعات اور شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور مزید جاننے کی پیاس جاگی۔

احفاظ صاحب کو تو ہم نے اب کھویا ہے مگر ان کی جھرنوں سی نرمی اور گونج کے ساتھ سماعتوں میں بہتی آواز سے ہم بہت پہلے محروم ہوچکے تھے۔ جب اطلاع ملی کہ سفاک سرطان ان کی آواز نگل چکا ہے تو میرے دل سے لہو رسنے لگا۔ آنکھوں کی نمی میں اپنے شفیق استاد کا خاموش چہرہ تیرنے لگا۔

ان دنوں وہ علاج کے سلسلے میں چھٹیوں پر تھے۔ ہم میگزین سیکشن کے ساتھی ان سے ملنے گھر گئے۔ میرا دل اداسی سے بھرا تھا کہ چپ سادھے احفاظ صاحب کو کیسے دیکھ پاؤں گا۔ لیکن سامنا ہوا تو ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو ہونٹوں سے زیادہ آنکھوں میں مسکراتی۔ وہ چھوٹے چھوٹے کاغذوں پر لکھ لکھ کر باتیں کر رہے تھے۔

میگزین سیکشن کے ساتھیوں کی احفاظ الرحمٰن صاحب سے ان کے گھر پر ہونے والی ملاقات—فوٹو: لکھاری
میگزین سیکشن کے ساتھیوں کی احفاظ الرحمٰن صاحب سے ان کے گھر پر ہونے والی ملاقات—فوٹو: لکھاری

عرصے تک وہ یوں ہی لکھ لکھ کر باتیں کرتے رہے۔ ان کی ہدایات، ستائش، ڈانٹ ڈپٹ سب چھوٹی چھوٹی پرچیوں کی صورت میں ہمارے سامنے آتا۔ یوں لکھ لکھ کر بات کرنا بیزارکن عمل ہے مگر وہ کبھی نہ اکتائے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی تاریخی اہمیت کی حامل اور ضخیم کتاب ‘سب سے بڑی جنگ’ اقبال خورشید کی معاونت سے مکمل کی۔ یوں انہوں نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ ہمت اور مستقل مزاجی کیا ہوتی ہے۔

یہ کتاب لکھ کر احفاظ صاحب نے بتادیا کہ ہمت اور مستقل مزاجی کیا ہوتی ہے—فوٹو: اقبال خورشید
یہ کتاب لکھ کر احفاظ صاحب نے بتادیا کہ ہمت اور مستقل مزاجی کیا ہوتی ہے—فوٹو: اقبال خورشید

گلے کے آپریشن کے بعد سے ان کی صحت گرتی جا رہی تھی۔ بجھتی آنکھوں سے کپکپاتے ہاتھوں تک جسم کی شکستگی انہیں ڈھانے پر تلی تھی مگر لگتا تھا وہ موت اور بیماری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے مخصوص انداز میں بلند بانگ قہقہہ لگاکر کہہ رہے ہوں ‘جاؤ یار جب تک زندہ ہوں زندہ رہوں گا’۔ سو وہ پوری دلچسپی کے ساتھ پیشہ ورانہ امور انجام دیتے رہے۔

آخری آرام گاہ—فوٹو: اقبال خورشید
آخری آرام گاہ—فوٹو: اقبال خورشید

اب وہ آلے کی مدد سے بولنے لگے تھے جو ان کے لیے لکھنے سے زیادہ مشقت تھی، لیکن جب بھی کسی پیشہ ورانہ معاملے میں بولنے کی ضررورت ہوتی وہ بلامبالغہ گھنٹہ گھنٹہ بھر بولتے اور نڈھال ہوجاتے۔

ایک دن میں دفتر پہنچا تو پتا چلا وہ نقاہت کے باعث لڑکھڑا کر گرگئے اور گھر چلے گئے ہیں۔

پھر وہ کبھی نہیں آئے۔ اور کل کی ابھرتی صبح یہ خبر دل و دماغ کو اندھیرں سے بھر گئی کہ وہ دنیا ہی سے چلے گئے۔

احفاظ صاحب! آپ سے اتنی شکایت تو بنتی ہے کہ ہمیں بے قاعدگیوں پر ڈانٹتے رہے اور خود یہ بے قاعدگی کہ رات کے جس آخری پہر جاگ اٹھتے تھے اس سمے ہمیشہ کے لیے سوگئے، یہ کیا کیا آپ نے۔

تبصرے (2) بند ہیں

فہد احمد Apr 14, 2020 08:40pm
ماشااللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے براہِ مہربانی مضمون میں یہ بھی بتادیتے کہ احفاظ الرحمٰن صاحب کی تدفین کون سے قبرستان میں ہوئی ہے تو بہتر ہوتا ہم جیسے قارئین کے لیے ۔۔۔۔۔
majid yazdani Apr 17, 2020 05:30pm
boht khobsorat yaden...