ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کا ایک اور طریقہ علاج تیار کرلیا

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2020
پاکستانی ماہرین نے پرانے طریقے میں ترمیم کرکے نیا طریقہ تیار کیا—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی
پاکستانی ماہرین نے پرانے طریقے میں ترمیم کرکے نیا طریقہ تیار کیا—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی

کورونا وائرس کے مریضوں کو بیماری سے بچانے کے لیے اگرچہ دنیا میں تاحال ویکسین تیار نہیں کی جا سکی اور نہ ہی اگلے 18 ماہ تک ویکسین دستیاب ہو پائے گی لیکن اس کے علاوہ تقریبا دنیا کے تمام ممالک مذکورہ بیماری کے نئے نئے علاج دریافت کر رہے ہیں۔

اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک کے ماہرین صحت نے پرانی دوائیوں اور پرانے طریقہ علاج میں ترمیم کرکے کورونا کے مؤثر علاج کے طریقے دریافت کرلیے ہیں، جن کے اچھے نتائج بھی آ رہے ہیں۔

اگرچہ اس وقت پاکستان سے لے کر امریکا تک کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے پلازما یا اینٹی باڈیز تھراپی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی طبی ماہرین نے اسی طریقہ علاج سے ایک نیا طریقہ نکال لیا۔

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کی طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں سے حاصل کیے جانے والے اینٹی باڈیز کو صاف کرکے ان سے ایک خاص قسم کے ذرات حاصل کرکے ان سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن ( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی۔

آئی وی آئی جی دراصل اینٹی باڈیز اور پلازما سمیت انسانی خون میں موجود دیگر ذرات کا ایک مکسچر ہوتا ہے اور اس طریقہ علاج کو پہلے بھی کئی مرضوں کے لیے استعمال کیا جا تا رہا ہے۔

یہ طریقہ علاج عالمی سطح پر علاج کے طریقوں کی منظوری دینے والے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف اے ڈی) کی جانب سے بھی منظور شدہ ہے اور اسے ماضی میں قوت مدافعت کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس وقت اگرچہ امریکا سے لے کر برطانیہ اور چین سے لے کر بھارت تک کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے اینٹی باڈیز اور بلڈ پلازما سے دوسرے بیمار مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی ماہرین کی جانب سے دریافت ہونے والا طریقہ کچھ مختلف ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے تیار کیا گیا طریقہ علاج کورونا کے علاج کے لیے اہم پیش رفت ہے اور اسے دنیا بھر کے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، تاہم اس سے مقامی سطح پر سب سے زیادہ ہوگا۔

ماہرین نے گزشتہ ایک ماہ سے طریقہ کار بنانے میں مصروف تھے—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی
ماہرین نے گزشتہ ایک ماہ سے طریقہ کار بنانے میں مصروف تھے—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی

ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر (وی سی) پروفیسر محمد سعید قریشی نے مذکورہ علاج کے حوالے سے بتایا کہ نئے طریقہ کار کو ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ایک ریسرچ ٹیم نے تیار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے ابتدائی طور پر مارچ 2020 میں کچھ مریضوں کے خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، جس کے بعد مذکورہ مریضوں کے خون کے پلازما سے اینٹی باڈیز کو کیمیائی طور پر الگ و صاف کرنے کے بعد ان سے ایک نیا طریقہ علاج امیونوگلوبیولن تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

یونیورسٹی ٹیم کے مطابق چوں کہ اینٹی باڈیز میں ناپسندیدہ مواد اور بعض وائرس و بیکٹیریاز شامل ہوتے ہیں، اس لیے مذکورہ طریقہ کار کے تحت اینٹی باڈیز میں موجود ہر قسم کے ناپسندیدہ ذرات کو ایک طرف کرکے اینٹی باڈیز سے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کی جاتی ہے اور یہ طریقہ ماضی میں بھی اپنایا جاتا رہا ہے مگر اس طریقہ کو پہلے دوسری بیماریوں پر استعمال کیا جاتا تھا۔

نیا طریقہ علاج ڈھونڈنے والے ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازما استعمال کرنے کے بجائے اسے صاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ ایسے ہی طریقوں کو ماضی میں دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض جیسے کہ سارس و مرس وائرس اور ابیولا سمیت تشنج، انفلوئنزا اور ریبیز کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر اس طریقوں کو کسی نے بھی آج تک کورونا کے لیے استعمال نہیں کیا۔

نئے طریقے سے کب تک علاج شروع ہو سکے گا؟

تیار کی گئی دوا کو محفوظ کرلیا گیا—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی
تیار کی گئی دوا کو محفوظ کرلیا گیا—فوٹو: ڈاؤ یونیورسٹی

نیا طریقہ تلاش کرنے والی ٹیم کے مطابق تیار کی گئی امیونو گلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا گیا ہے اور جلد ہی اس طریقہ کار کے تحت علاج شروع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس ضمن میں ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے تحت ٹرائل کے لیے اخلاقی و قانونی حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایات کردی ہیں، تاکہ جلد سے جلد اس طریقے کو آزمایا جا سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والی ریسرچ سے اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ مقامی سطح پر کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی ڈاؤ یونیورسٹی کے نئے طریقے کو مؤثر اور مفید سمجھا جا رہا ہے۔

تاہم مذکورہ طریقہ علاج کتنا کامیاب ہوگا، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اگلے 2 سے تین ہفتوں میں ڈاؤ یونیورسٹی اور ہسپتال انتظامیہ مذکورہ طریقے تحت مریضوں کا علاج کرنا شروع کردے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں