کورونا وائرس: حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ہزاروں دوا فروش خطرے سے دوچار

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2020
کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ بھی موجود ہے—فوٹو: اناطولو
کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ بھی موجود ہے—فوٹو: اناطولو

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے والے پاکستان میں جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملہ حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے کورونا میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، وہیں ملک بھر کے ہزاروں میڈیکل اسٹورز کا عملہ بھی اس خطرے سے دوچار ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع ملک کی سب سے بڑی دوا فروش مارکیٹ کے درجنوں میڈیکل اسٹورز کے ملازمین حفاظتی اقدامات کیے بغیر اپنا روزگار جاری رکھے ہوئے ہیں، جس وجہ سے ان کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

ترک خبر رساں ادارے اناطولو کے مطابق کراچی کی میڈیسن مارکیٹ ڈینسو ہال میں تقریبا 1500 افراد کام کرتے ہیں جو سخت حفاظتی انتطامات کے بغیر ہی کام کر رہے ہیں اور ایسے لوگ یومیہ درجنوں افراد کا سامنا کر رہے ہیں، جس وجہ سے ان کے وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔

کراچی کے ضلع جنوبی کے ایک میڈیکل اسٹور پر کام کرنے والے 32 سالہ مصطفٰی کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیوں کہ ملک بھر سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کے ارکان بھی کورونا میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’جب میں حفاظتی کٹس بنواسکتا ہوں تو حکومت نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟‘

مصطفیٰ نے اگرچہ حفاظتی لباس، فیس ماسک اور دستانے پہننے سمیت دیگر مناسب حفاظتی انتظامات بھی کر رکھے ہیں، تاہم پھر بھی انہیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ کہیں کورونا کا شکار نہ ہوجائیں۔

مصطفیٰ میڈیکل اسٹورز پر ملازمت کرنے کی وجہ سے یومیہ درجنوں افراد کا سامنا کرتے ہیں، جن میں سے بہت سارے افراد نے نہ تو فیس ماسک پہنا ہوتا ہے اور نہ ہی انہوں نے دستانے پہن رکھے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ دوسرے لوگوں سے فاصلہ رکھنے کو اہمیت دیتے ہیں۔

کورونا وائرس کے شکار ہونے کے خوف میں اکیلے مصطفیٰ مبتلا نہیں ہیں بلکہ کراچی کے ہزاروں میڈیکل اسٹورز ملازمین بھی ایسے ہے خدشے سے دوچار ہیں۔

کراچی میں ملک کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ بھی موجود ہیں جہاں پر یومیہ ہزاروں افراد آتے ہیں جو حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی گھوم رہے ہوتے ہیں۔

ایسے افراد کا سامنا کرنے والے میڈیسن مارکیٹ کے 1500 ارکان بھی اس وقت پریشانی میں مبتلا ہیں، کیوں کہ ان کے پاس بھی حفاظت کے انتہائی انتظامات نہیں۔

یومیہ درجنوں افراد کا سامنا کرنے والے دوا فروش ملازمین اس وقت ڈاکٹرز اور طبی عملے کی طرح کورونا وائرس کا ممکنہ سب سے پہلا ٹارگٹ ہیں۔

کراچی کے علاقے چاکیواڑہ کے ایک میڈیکل اسٹور پر کام کرنے والے زاہد علی کہتے ہیں کہ اس وقت دوا فروش عملہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے، کیوں کہ ان کے پاس آنے والے زیادہ تر افراد حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی آ رہے ہوتے ہیں۔

زاہد علی نے بتایا کہ یہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس پر عمل کرنے کے لیے رضا مند ہیں بلکہ اس کے بر عکس ہر کوئی ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کھڑا رہتا ہے بلکہ ایک دوسرے کو گلے لگانے سمیت بار بار ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہوتے ہیں۔

زاہد علی نے بتایا کہ اگرچہ وہ فیس ماسک پہننے سمیت دستانے بھی پہنتے ہیں اور ساتھ ہی حفاظتی لباس بھی استعمال کرتے ہیں، تاہم انہیں یومیہ درجنوں افراد کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہمیشہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ بھی کورونا کا شکار نہ بن جائیں۔

مزید پڑھیں: ملتان: نشتر ہسپتال کے 18 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص

طبی رضاکاروں اور عملے کو حفاظتی لباس فراہم کرنے والی سماجی تنظیم دعا فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریٹری فیض عالم بھی مانتے ہیں کہ یومیہ درجنوں افراد کا سامنا کرنے والے دوا ساز افراد اس وقت کورونا کے شدید خطرے میں ہیں، کیوں کہ میڈیسن مارکیٹ کے لوگ یومیہ درجنوں ایسے افراد کا سامنا کرتے ہیں جنہوں نے کوئی حفاظتی انتطامات نہیں کیے ہوتے اور ان سے متعلق کسی کو کچھ پتہ بھی نہیں ہوتا۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جہاں عام لوگ حفاظتی انتظامات نہیں کر رہے، وہیں میڈیسن مارکیٹ کا عملہ بھی حفاظتی اقدامات نہیں کر رہا اور بمشکل کچھ دکاندار حفاظتی ہدایات پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دعا فاؤنڈیشن کے عہدیدار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طبی عملے کی طرح دوا فروش عملے کے لیے بھی حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں طبی عملے اور دوا فروشوں کو حفاظتی کٹس فراہم نہ کرنے کے باعث اب تک کم از کم 3 ڈاکٹرز کورونا وائرس کی وجہ سے جاں بحق جب کہ 2 درجن کے قریب اس سے متاثر بھی ہو چکے ہیں۔

حفاظتی کٹس نہ ہونے کی وجہ سے طبی رضاکاروں اور دوا فروشوں کے مزید مبتلا ہونے کا خطرہ ہے تاہم تاحال حکومت کی جانب سے ایسے افراد کے لیے کوئی باضابطہ لائحہ سامنے نہیں آ سکا۔

پاکستان میں اگرچہ کورونا کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے ملک بھر میں 22 مارچ سے جزوی لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے تاہم پھر بھی ملک میں کورونا کے کیسز تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں نے 14 اپریل کو جزوی لاک ڈاؤن کی مدت کو مزید 2 ہفتوں تک بڑھاتے ہوئے کچھ کاروباری اداروں کو کھولنے کی اجازت دی ہے مگر پھر بھی ٹرانسپورٹ سمیت عوامی و تفریحی مقامات کو بند رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں 15 اپریل کی دوپہر تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 6217 تک جا پہنچی تھی جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 113 تک جا پہنچی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں