کورونا وائرس کے علاج کے لیے تجرباتی دوا کے متاثر کن نتائج

17 اپريل 2020
کیا یہ دوا اس وبائی مرض کا علاج ثابت ہوگی —اے پی  فوٹو
کیا یہ دوا اس وبائی مرض کا علاج ثابت ہوگی —اے پی فوٹو

حالیہ دنوں میں امریکا اور کینیڈا میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے تجرباتی دوا ریمیڈیسیور (Remdesivir) کے استعمال کے نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا۔

اب اس تجرباتی دوا کے حوالے سے توقعات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب یہ امریکا کی معتبر ہیلتھ ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریمیڈیسیور کے استعمال کرنے والے مریض توقعات سے جلد صحتیاب ہوگئے اور چند دنوں میں گھر بھی واپس چلے گئے۔

شکاگو کے ایک ہسپتال میں ہونے والے ٹرائل کے دوران گیلاڈ سائنز کی تیار کردہ اس اینٹی وائرل دوا کے اثرات کا مریضوں پر باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے مریضوں کے بخار اور نظام تنفس کی علامات بہت جلد ختم ہوگئیں اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں تمام مریضوں کو صحتیاب قرار دے کر ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

یونیورسٹی آف شکاگو میڈیسین میں کووڈ 19 کے 125 مریضوں کو دوا ساز کمپنی کی کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں شامل کیا گیا تھا۔

125 میں سے 113 افراد میں بیماری کی شدت زیادہ تھی اور ان سب مریضوں کے علاج کے لیے ریمیڈیسیور سیال کو انجیکشن کے ذریعے روزانہ جسم میں انجیکٹ کیا گیا۔

شکاگو یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر اور اس تجرباتی دوا کی تحقیق کی نگرانی کرنے والی ڈاکٹر کیتھلین مولین نے بتایا 'بہترین خبر یہ ہے کہ ہمارے بیشتر مریض اب ڈسچارج ہوچکے ہیں، اب صرف 2 مریض باقی رہ گئے ہیں'۔

اس تجرباتی دوا کے حوالے سے مختلف ممالک میں کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں جن میں کووڈ 19 کے خلاف اس کی افادیت کا جائزہ لیا جارہا ہے خصوصاً چین میں ایک بڑی تحقیق کے نتائج رواں ماہ کسی وقت سامنے آسکتتے ہیں۔

شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق کے حوالے سے گیلاڈ نے اپنے بیان میں کہا 'اس مرحلے پر ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم دنیا بھر میں جاری اسٹڈیز کے نتائج کی دستیابی کے منتظر ہیں'۔

کمپنی نے بتایا کہ اس کے کووڈ 19 کے سنگین کیسز پر جاری کلینیکل ٹرائلز کے نتائج بھی اپریل میں سامنے آسکتے ہیں اور شکاگو یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیتھلین مولین کے مطابق 400 مریضوں پر ہونے والی ایک الگ تحقیق کا ڈیٹا گیلاڈ نے لاک کرلیا ہے، یعنی وہ کسی بھی وقت جاری ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر کیتھلین نے کوئی واضح نتیجہ بیان کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا 'یہ بہت مشکل ہے، کیونکہ اس تحقیق میں دیگر ادویات کا استعمال کرنے والے گروپ کا موازنہ نہیں کیا گیا، مگر جب ہم نے دوا کا استعمال شروع کیا، تو ہم نے دیکھا کہ بخار کی شدت میں کمی آنے لگی، ہم نے دیکھا جب مریض شدید بخار کے ساتھ آتے تو اس دوا سے اس میں فوری کمی آتی، ہم نے لوگوں کو علاج کے ایک دن بعد ہی وینٹی لیٹرز سے باہر آتے دیکھا، تو مجموعی طور پر ہمارے مریضوں پر اس دوا نے بہت اچھا کام کیا'۔

ان کا کہنا تھا 'ہمارے بیشتر مریضوں میں بیماری کی شدت بہت زیادہ تھی اور ان میں سے بیشتر 6 دن میں ڈسچارج بھی ہوگئے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ علاج کا دورانیہ 10 دن نہیں تھا، بہت کم مریض یعنی شاید 3 افراد ایسے تھے جن کو 10 دن میں ڈسچارج کیا گیا'۔

درحقیقت مریض کی شدت میں اضافے سے کووڈ 19 کے مریضوں میں اموات کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو 113 ایسے مریضوں کا اتنی جلد صحتیاب ہوکر ڈسچارج ہونا واقعی حیران کن ہے۔

گیلاڈ کی سنگین کیسز پر دنیا بھر میں 152 مختلف کلینکل ٹرائلز میں 24 سو مریضوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ 169 مختلف مراکز میں 16 سو معتدل مریضوں پر الگ ٹرائلز پر کام ہورہا ہے۔

ان ٹرائلز میں دوا سے 5 اور 10 روزہ علاج کے کورسز پر تحقیقات کی جارہی ہے اور بنیادی مقصد یہ دیکھنا ہے کہ مریضوں کے لیے دونوں کورسز میں سے زیادہ موثر کونسا ہے۔

رپورٹ میں شکاگو یونیورسٹی کی اس تحقیق کا حصہ بننے والے ایک مریض کا احوال بھی بیان کیا گیا۔

57 سالہ سلوامیر مائیکلک شکاگو کے ایک معمولی فیکٹری ورکر ہیں اور ان کی ایک بیٹی مارچ کے آخر میں بیمار ہوئی اور بعد میں اس میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

جس کے بعد سوالمیر کو بھی تیز بخار، سانس لینے میں مشکل اور کمر میں شدید درد کی شکایت ہوئی اور ان کا کہنا تھا 'مجھے ایسا لگتا تھا جیسے کوئی میرے پھیپھڑوں پر مکے مار رہا ہے'۔

بیوی کے زور دینے پر وہ 3 اپریل کو شکاگو یونیورسٹی کے میڈیسین ہاسپٹل گئے، اس وقت بخار 104 تک پہنچ چکا تھا اور سانس لینے مٰں مشکل ہوورہی تھی۔

وہاں انہیں آکسیجن دی گئی اور ان کی اجازت پر انہیں تجرباتی دوا کے ٹرائل میں شامل کرلیا گیا۔

4 اپریل کو پہلی بار انہیں ریمیڈیسیور کا استعمال کرایا گیا 'میرا بخار لگ بھگ فوری طور پر ختم ہوگیا اور میں خود کو بہتر محسوس کرنے لگا'۔

اتوار کو دوسری ڈوز کے بعد انہیں آکسیجن سے نکال لیا گیا اور مزید 2 دن دوا کا استعمال کرنے کے بعد حالت اتنی بہتر ہوگئی کہ انہیں 7 اپریل کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

ان کے اپنے الفاظ میں 'ریمیڈیسیور تو ایک کرشمہ ہے'۔

اور دنیا بھی یہ جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ کیا واقعی یہ دوا اس وبائی مرض کے خاتمے کے لیے کرشماتی اثر رکھتی ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں