آزادی صحافت کی فہرست میں پاکستان 3 درجے تنزلی کے ساتھ 145 ویں نمبر پر

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2020
آر ایس ایف کے مطابق پاکستان میں میڈیا اداروں کو اشتہارات واپس لینے کی دھمکی سے ڈرایا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
آر ایس ایف کے مطابق پاکستان میں میڈیا اداروں کو اشتہارات واپس لینے کی دھمکی سے ڈرایا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس یعنی آزادی صحافت کی فہرست برائے سال 2020 جاری کردی جس کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے مزید 3 درجے تنزلی کے ساتھ 145 نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

فہرست میں سب سے پہلا نمبر مسلسل چوتھے سال ناروے کا ہے، جس کے بعد دیگر اسکینڈینیوین ممالک آتے ہیں جبکہ فہرست کے سب سے نچلے درجے پر شمالی کوریا براجمان ہے، مزید یہ کہ چین نے اپنا 177واں نمبر برقرار رکھا ہے۔

خطے کے دیگر ممالک جن کے درجے میں تنزلی ہوئی ان میں بھارت جس کی رینکنگ گزشتہ برس کے 140ویں نمبر سے کم ہو کر 142 ہوگئی، اسی طرح ایران 173ویں جبکہ افغانستان 122ویں درجے پر آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی عزیز میمن کے مبینہ قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان میں میڈیا اداروں کو اشتہارات واپس لینے کی دھمکی سے ڈرایا جاتا ہے اور جو ٹی وی چیننلز اپوزیشن نمائندوں کو نشریات کا وقت دیتے ہیں ان کے سگنلز روک دیے جاتے ہیں۔

آر ایس ایف کا کہنا تھا کہ اسی طرح جو صحافی فوج کی حدود سمجھے جانے والے معاملات میں داخل ہونے کی جرات کرتے ہیں انہیں ہراسانی کی مہم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا روایتی میڈیا پر راج کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنے ناپسندیدہ مواد کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے صاف کرنے لگی ہے، اس حد تک کہ حکومت آن لائن ’قواعد‘ نافذ کرنا چاہتی ہے جس کا واضح مطلب سینسر شپ ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سوئیڈن میں لاپتہ

دوسری جانب صحافیوں کو فیلڈ میں بدستور خطرات کا سامنا ہے بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جہاں رپورٹرز سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ 2019 میں اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے 4 صحافی قتل ہوئے جبکہ ایک صحافی کو 2020 میں قتل کیا گیا اور تقریباً ایک دہائی سے یہ صورتحال ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے جرائم کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

آر ایس ایف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا جو کہ روایتی طور پر ایک طویل عرصے تک بہت زندہ دل تھا اب ملک کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا ترجیحی ہدف بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ممنوع لٹریچر رکھنے کا الزام: سینئر صحافی نصراللہ چوہدری باعزت بری

رپورٹ میں آر ایس ایف نے مزید کہا کہ ’جولائی 2018 میں جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے اثر رسوخ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے اور بے باک سینسر شپ کے بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں فوج نے دباؤ کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، اخبارات بالخصوص روزنامہ ڈان کی ترسیل میں مداخلت کی گئی‘۔


یہ خبر 22 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں