ایسا نظر آتا ہے کہ نئے نوول کورونا وائرس کی وبا اس ارتھ ڈے پر زمین کے لیے ایک تحفہ بن گئی ہے۔

اس وائرس نے دنیا بھر میں اربوں افراد کو گھروں تک محدود کردیا ہے جبکہ بین الاقوامی سفر جیسے ماضی کا قصہ بنتا جارہا ہے جو حالات بہتر ہونے پر ہی دوبارہ بحال ہوسکے گا۔

گھروں میں رہنے والے تمام افراد اب محسوس کرسکتے ہیں کہ عالمی ماحولیاتی مسائل میں ان کا اپنا کتنا ہاتھ ہے اور اثرات بالکل واضح ہیں۔

تھائی لینڈ کے ساحلوں پر سیاحوں کی عدم موجودگی کے نتیجے میں وہاں نایاب ساحلی کچھوئوں کی نشوونما میں بہتری آئی ہے اور 2 دہائیوں بعد ان کی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی ہے۔

بھارت میں ہمالیہ کے پہاڑ 3 دہائیوں بعد نظر آئے تو آسٹریلیا میں کینگروز مزے سے سڑکوں پر گھومتے نظر آئے، جبکہ فضا شفاف ہونے سے سانس لینے بھی آسان ہوگیا۔

فروری کے آخر میں سب سے پہلے لاک ڈائون کا اثر چین کی فضائی آلودگی میں دیکھنے میں آیا تھا اور سیٹلائیٹ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ چین میں کس طرح ڈرامائی حد تک نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی، جو گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیس ہے جس کی فضا میں زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

یورپین اسپیس ایجنسی کی سیٹلائیٹ تصاویر میں یہ اثر شمالی اٹلی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں لاک ڈائون کو کئی ہفتے گزر چکے تھے، ویڈیو میں دیکھا جاسکا ہے کہ کس ڈرامائی حد تک یکم جنوری سے 11 مارچ کے دوران نائٹروجن ڈی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی۔

یورپی ایجنسی کے مطابق اس اخراج میں کمی کی وجہ لاک ڈائون کے دوران ٹریفک اور انسانی سرگرمیوں میں کمی آنا ہے۔

درحقیقت سب سے بڑا اثر جو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے وہ اٹلی کے مشہور شہر وینس کا ہے جس کی نہریں سیاحوں کے رش بہت زیادہ دھندلی اور غلیظ ہوچکی تھیں۔

مگر کئی ہفتے کے لاک ڈائون کے بعد وہ اتنی شفاف ہوگئی ہیں کہ متعدد اقسام کی مچھلیاں یہاں تک کہ جیلی فش کو بھی ان میں تیرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح اپریل 2019 اور اپریل 2020 کی سیٹلائیٹ تصاویر میں وینس کی نہروں کا موازنہ کیا گیا اور اندازہ ہوتا ہے کہ اب پانی کی رنگت پہلے سے زیادہ خوبصورت اور شفاف ہوگئی ہے۔

وہ جنگلی حیات جو غذا کے لیے انسانوں پر انحصار کرنے لگی تھی، اب اتنی بڑی تبدیلی کے بعد زیادہ بے جھجک ہوگئی ہے، جیسے جاپان کے نارا پارک میں موجود ہرن سیاحوں کی جانب سے دی جانے والی غذا کے عادی ہوگئے تھے۔

مگر اب وہاں کوئی آنے والا نہیں رہا تو وہ ہرن پارک سے باہر نکل کر شہر میں خوراک تلاش کرنے لگے ہیں۔

اسی سے ملتا جلتا مگر زیادہ برا منظر تھائی لینڈ کے علاقے لوپبری میں دیکھنے میں آیا جہاں مقامی بندروں نے خوراک کے لیے قصبے کی گلیوں پر دھاوا بول دیا۔

پاکستان میں لاک ڈائون سے فضائی آلودگی میں کمی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا تو اب تک سامنے نہیں آیا مگر کراچی کی چند تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کی فضا اب کتنی صاف ہوگئی، جو عموماً گرد اور دھویں کی وجہ سے دھندلی نظر آتی تھی۔

ایسی ہی لاہور کی جنوری 2019 اور رواں ماہ کی ایک تصویر میں یہ فرق محسوس کی جاسکتا ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کو دنیا کا آلودہ ترین شہر سمجھا جاتا ہے مگر وہاں بھی لاک ڈائون سے نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

دنیا بھر میں بندشوں کے نتیجے میں فضا میں کاربن کی مقدار پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سینتر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ائیر کے تجزیہ کار لوری مائلیویترا کے مطابق چین میں لاک ڈائون کے نتیجے میں کوئلے اور تیل کم جلانے سے کاربن کے اخراج کی شرح میں 2019 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 25 فیصد کمی آئی۔

یہ مقدار 100 میٹرک ٹن کے برابر سمجھی جاسکتی ہے جو اسی عرصے میں عالمی سطح کے 6 فیصد حصے کے برابر ہے۔

اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے ڈرامائی تبدیلیاں ابھی کچھ عرصہ مزید دیکھنے میں آئیں گی کیونکہ فی الحال دنیا بھر میں لاک ڈائون میں نرمی تو کی جارہی ہے مگر زندگی کی معمول پر واپسی کب تک ہوگی، یہ ابھی کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔

ماہرین کے مطابق ویکسین کی دستیابی سے قبل اس طرح کی پابندیاں کسی حد تک برقرار رہیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں