پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 جنوری کو کراچی میں سامنے آیا تھا جس کے بعد مختلف شہروں سے کیسز سامنے آتے گئے جن میں ڈاکٹر، طبی عملہ، اراکین اسمبلی، سینیٹر، صوبائی وزرا اور گورنرسندھ سمیت اعلیٰ عہدوں پر تعینات شخصیات بھی متاثر ہوئیں اور اکثرصحت یاب ہوکر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔

ایک ڈاکٹر اور کووڈ-19 کے متاثر ڈاکٹر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی کہانی سنائی۔

’دعا کرتے، کتابیں پڑھتے وقت گزارا‘

صحت یاب ہونے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ انہیں کورونا وائرس کی کوئی علامات نہیں تھیں لیکن نشتر ہسپتال میں چند دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ٹیسٹ کروانے گئے اور میرا ٹیسٹ مثبت آیا۔

مزید پڑھیں:ملک میں کورونا متاثرین 15 ہزار سے زائد، پنجاب کے بعد سندھ میں بھی اموات 100 ہوگئیں

ان کا کہنا تھا کہ ذہنی طور پر دباؤکا شکار ہوگیا تھا لیکن جذباتی اور اعصابی لحاظ سے مضبوط تھا۔

قرنطینہ کا احوال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے نشتر ہسپتال کے سرکاری قرنطینہ منتقل کیا گیا جہاں ٹیسٹ منفی آنے میں 7 دن لگے اور آٹھویں روز میرا تیسرا ٹیسٹ منفی آیا لیکن مزید 7 روز کے آئسولیشن کی ہدایت کے ساتھ ڈسچارج کردیا گیا

ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے صرف معدے میں درد محسوس ہورہا تھا اوربعد میں دست شروع ہوگئے تھے جبکہ مثبت ٹیسٹ کے دوران کلوروکوئین دوا بھی استعمال کرتا رہا۔

انہوں نے عوام سے کہا کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اور حکومت کی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں جبکہ علامات ظاہر ہونے پر قریبی ہسپتال چلے جائیں۔

صحت یاب ہونے والے ڈاکٹر کا کہناتھاکہ انہیں سرکاری قرنطینہ مرکزمیں رکھا گیا تھا جہاں کاؤنسلنگ اور بہتر خیال رکھا جارہا تھا جبکہ اعلیٰ حکام بھی مسلسل دورہ کرتے رہے۔

قرنطینہ مرکزکے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہاں موجود نرسنگ کانظام اور دیگر معاون عملہ بھی بہت خیال رکھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ میں آج آنے والے کیسز اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے، مراد علی شاہ

انہوں نے کہا کہ میری کوئی ٹریول ہسٹری نہیں تھی جبکہ قرنطینہ میں اپنا وقت کتابیں پڑھنے، اللہ سے دعائیں مانگنے اور باقاعدگی سے سوتے ہوئے گزارا۔

چھٹیاں لیکر آبائی علاقے جانا چاہتا تھا مگر کوروناہوگیا، نیوز اینکر

کورونا وائرس کو شکست دینے والے چینل 24 کے نیوز اینکر محمد احسان نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معمولی نزلہ اور گلے کی خراش کی شکایت چند دنوں سے تھی۔

نیوز اینکر کا کہنا تھا کہ 'میں باقاعدگی سے دفتر جارہا تھا اور نزلہ اور گلے کی انفیکشن کو موسم کاباعث سمجھ رہا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چھٹیاں لے کر اپنے آبائی علاقے جہلم جانا چاہتے تھے لیکن سوچا کہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروا لوں جو پاکستان میں رپورٹ ہونا شروع ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے اپنے دفتر کی انتظامیہ سے کورونا وائرس ٹیسٹ کروانے کا کہا کیونکہ نزلہ او گلے کا انفیکشن تھا جس کے بعد ساتھیوں سمیت میرا ٹیسٹ مثبت آیا'۔

نیوز اینکر کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تین سے 4 گھنٹے میں تھوڑا پریشان رہا اور کورونا مثبت آنے پر خوفزدہ بھی ہوا لیکن جسمانی طور پر خود کو مضبوط اور معمول کے مطابق محسوس کررہا تھا'۔

انہیں جناح ہسپتال لاہور کے سرکاری قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا جہاں تمام اسٹاف اور پوری انتظامیہ نے ان کا خیال رکھا۔

مزید پڑھیں:سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی کا کورونا ٹیسٹ دوبارہ مثبت آگیا

ان کا کہنا تھا کہ قرنطینہ مرکز میں تین وقت کا کھانا اور پھل بھی دیے جاتے تھے اور اس کے ساتھ گلے کے انفیکشن کے لیے دوا بھی فراہم کی جاتی تھی اور 4 دن میں نزلہ اور گلہ ٹھیک ہوگیا۔

محمد احسان کے مطابق پانچویں روز ان کا ٹیسٹ منفی تھا اور دو روز بعد دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا اور آٹھویں روز قرنطینہ مرکز سے گھر بھیج دیا گیا اور 14 دن تک آیسولیشن میں رہنے کی ہدایت کی گئی، جس پر میں نے عمل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قرنطینہ کا دورانیہ مکمل کرکے میں لاہور میں واپس اپنے دفتر آیا اور معمول کی سرگرمیاں شروع کردی۔

قرنطینہ وقت گزارنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں پرسکون تھا اور ویڈیو کالز کے ذریعے خاندان اور دوستوں سے رابطے میں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت گزارنے کے لیے فلمیں دیکھیں جبکہ اسٹاف خاص کر نرسز نے ادویات اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرنے میں بڑی مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ کے سوا ملک بھر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹس کی تعداد میں کمی

نیوز اینکر کا کہنا تھا کہ میری کوئی ٹریول ہسٹری نہیں تھی اس لیے عوام سے کہوں گا کہ حکومتی ہدایات پر عمل کریں اور وبا کے خاتمے تک گھروں میں بیٹھے رہیں کیونکہ یہ وائرس حملہ آور ہوسکتا ہے جس کے باعث موت بھی ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 15 ہزار 289 ہوچکی ہے اور سب سے زیادہ پنجاب میں 5 ہزار 827 اور سندھمیں 5 ہزار 695 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث 335 افراد ہلاک جبکہ 3 ہزار 425 متاثرین صحت یاب ہوگئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں