ترکی نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ’تباہ کن پالیسوں‘ پر خبردار کردیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ نے یو اے ای پر زور دیا کہ وہ اپنے انقرہ کے خلاف ’پرتشدد رویے‘ سے باز رہے۔

مزیدپڑھیں: سال 2019ء: مشرق وسطیٰ میں اس سال بھی کوئی بہتری نہیں آئی

ترک وزارت خارجہ کے ترجمان ہمی اکوسے نے کہا کہ ’دراصل یو اے ای کا بیان دو سیاسی چہروں کو چھپانے کے لیے ہے اور وہ لیبیا میں حکومت کو گرانے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

ترکی نے طرابلس میں قائم حکومت قومی معاہدے (جی این اے) کی حمایت کی ہے اور متحارب گروپ خلیفہ حفتر کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے فوجی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

انقرہ میں حکومت متعدد مرتبہ عالمی طاقتوں سے طالبہ کرتی رہی ہے کہ وہ خلیفہ حفتر کی افواج کی مدد کرنا بند کردے۔

اماراتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ ’انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے لیبیا کی نیشنل آرمی کی حمایت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے لیبیا میں عالمی طور پر تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کی حمایت میں ’ترک فوجی مداخلت سے قطعی طور پر مسترد کرنے کا اظہار کیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا: حکومت نے خلیفہ حفتر کی فورسز سے 2 شہروں کا قبضہ واپس لے لیا

متحدہ عرب امارات نے خلیفہ حفتر کے ڈیگلیئریشن پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا کہ ان کی افواج اقتدار سنبھالے گی۔

ترکی کی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے ’محضحکہ خیز‘ اور ’بے بنیاد‘ الزامات اپنی ’تباہ کن پالیسیاں‘ پر پردہ ڈالنے کی کوششیں تھیں۔

ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ یو اے ای کے متعدد اعلیٰ عہدیدار سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے دورے پر تھے تاکہ خلیفہ حفتر کے لیے حمایتی اور جنگجوؤں کی بھرتی کیا جا سکے۔

ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ متحدہ عرب امارات کے اقدامات سے لیبیا سمیت یمن، شام اور افریقہ میں عالمی امن و سلامتی اور استحکام میں خلل پڑتا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم متحدہ عرب امارات کی قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کے خلاف مخالفانہ مؤقف اختیار کرنے سے گریز کریں‘۔

مزیدپڑھیں: کورونا وائرس کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران اقتدار سے الگ کیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔

ایل این اے نے اپریل 2019 سے طرابلس کی حکومت کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور دارالحکومت طرابلس سے محض 370 کلومیٹر دور سرت پہنچ چکے تھے جہاں کئی مہینوں تک لڑائی جاری تھی۔

مزید پڑھیں: لیبیا: متحارب گروپس کے سربراہان کی عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت متوقع

جی این اے کے فورسز کا کہنا تھا کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے سرت سے پیچھے ہٹے ہیں جہاں پر ان کا قبضہ 2016 سے قائم تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں