اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ بتدریج ان شبعوں کو پابندیوں سے آزاد کیا جارہا ہے جہاں وائرس کے پھیلنے کے امکانات نسبتاً کم ہیں۔

میڈیا بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا متعلقہ شبعوں میں ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا گیا تو ممکنہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ایک طرف بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف معیشت کا بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: ڈاکٹر ظفر مرزا کی سوشل میڈیا پر چلنے والی عدلیہ مخالف مہم کی مذمت

معاون خصوصی نے کہا کہ مختلف اوقات میں مختلف اداروں، کاروبار، دکانوں، شعبہ تعمیرات سمیت مساجد سے متعلق مرتب کئی گئی ایس او پیز کو انفرادی طور پر ذمہ داری میں شامل کرلیں تو پھر اس کے نتائج مثبت آسکتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایس او اپیز متعدد مرتبہ دہرائی جائیں گی اور اس ضمن میں تمام معلومات کوویڈ 19 کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے۔

وزارت صحت سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تردید

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے میڈیا رپورٹس کی سختی سے تردید کی جس میں کہا گیا کہ وزارت صحت نے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے نیشنل ڈیزاسٹر کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا اور میڈیا کو غیر ذمہ دارانہ خبر نشر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر ظفر مرزا نے سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی مذمت کردی

معاون خصوصی نے وضاحت کی کہ جس مراسلے کو جواز بنا متعلقہ نیوز چینل نے وزارت صحت سے متعلق خبر نشر کی اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس امر پر زور دیا کہ وائرس کی وجہ سے بننے والی مجموعی صورتحال میں میڈیا کو انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کسی بھی خبر کو نشر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیا کریں۔

پاکستان میں کوویڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹے میں 990 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو اب تک ایک دن میں منظر عام پر آنے والے اعداد وشمار میں سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ کیسز سندھ میں رپورٹ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہو رہی، ڈاکٹر ظفر مرزا

معاون خصوصی نے کہا کہ مجموعی کیسز کے 26 فیصد مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔

اموات سے متعلق ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ اعداد و شمار جمع کرنے والے نظام میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور جس کے باعث اموات کی تعداد زیادہ لگ رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں