ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ، وفاق اور سندھ تنازع کا شکار

اپ ڈیٹ 04 مئ 2020
بلاول بھٹو کے مطابق اگر وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر ناکام ہوتی ہے تو ملک ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ایک اور آفت کا مقابلہ کرے گا - فائل فوٹو: اے ایف پی
بلاول بھٹو کے مطابق اگر وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر ناکام ہوتی ہے تو ملک ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ایک اور آفت کا مقابلہ کرے گا - فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: کورونا وائرس کی عالمی وبا میں اضافے پر قابو پانے کے طریقوں پر الزام تراشی کے بعد وفاق اور سندھ حکومت ٹڈی دل کے معاملے پر بھی تنازع کا شکار ہے جن پر قابو نہ پانے کی صورت میں ملک میں غذائی تحفظ کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں بیان جاری کیا تھا کہ ملک میں ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ہے۔

گزشتہ روز وزارت برائے قومی خوراک تحفظ نے ایک ردعمل میں کہا تھا کہ ان کی وزارت اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر محکمہ برائے نباتاتی تحفظ کے ساتھ کام کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان میں غذائی تحفظ کے بحران پیدا ہونے کا خدشہ

انہوں نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت بین الاقوامی تناظر اور ٹڈی دل کی نگرانی کرنے والے اداروں کے ساتھ روابط قائم کرکے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہے۔

تاہم بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ گزشتہ برس متعدد درخواستوں کے باوجود صوبوں کو صحرائی ٹڈی دل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا، اگر وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر ناکام ہوتی ہے تو ملک ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ایک اور آفت کا مقابلہ کرے گا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے میں ٹڈی دل کے خطرے سے متعلق کچھ نہ کرنے کے سندھ حکومت کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خوراک تحفظ نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس خطرے کا تعاقب کررہی ہے۔

وزیر خوراک سید فخر امام نے کہا کہ الزام تراشی کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سندھ حکومت کو اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مربوط ردعمل دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ قوم اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ طور پر ممکنہ بہترین انداز میں جواب دے گی جبکہ وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان فار لوکسٹ کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے اس کا دوبارہ جائزہ لے رہی ہے۔

وزارت قومی خوراک تحفظ نے کہا کہ ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ سندھ تک محدود نہیں بلکہ دیگر صوبے بھی اس سے متاثر ہوئے تھے، سندھ میں نظر آنے والے ٹڈی دل کا جھنڈ بلوچستان سے نہیں کوہ سلیمان کے سلسلے سے ہے۔

احتیاطی تدابیر کے طور پر محکمہ نباتاتی تحفظ نے سکھر میں 3 زمینی ٹیمیں، ایک ہیلی کاپٹر اور ایک بیور ایئر کرافٹ تعینات کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے چین 50 ڈرونز، کیڑے مار ادویات فراہم کرے گا

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے حالیہ رپورٹ میں پاکستان سمیت متعدد خطے کے ممالک میں ٹڈی دل کے حملوں سے غذائی تحفظ کے بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

‘پاکستان میں ٹڈی دل کی صورتحال‘ کے عنوان سے رپورٹ میں جنوب مغربی ایشیا سے ٹڈی دل کی ہجرت، مختلف ممالک میں اس کے حملے، پاکستان کی زراعت پر انحصار کرنے والی معیشت پر اس کا اثر سمیت پاکستانی حکومت کی اس کو روکنے کے لیے اقدامات اور ابھرتی ہوئی صورتحال کو نمایاں کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اور مشرقی حصے میں ایران کو سب سے زیادہ خطرے کا سامنا ہے کیونکہ ان علاقوں میں ٹڈیوں کی افزائش ہورہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں 38 فیصد علاقہ (بلوچستان میں 60 فیصد، سندھ میں 25 فیصد اور پنجاب میں 15 فیصد) ٹڈیوں کی افزائش گاہیں ہیں جبکہ اگر انہیں ان کی افزائش کی جگہ تک روکا نہیں کیا تو پورا ملک اس کے حملے کے خطرے میں ہوگا‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آنے والے ہفتوں/مہینوں میں ایران کے جنوبی حصے، ایران اور بلوچستان کے سرحدی علاقے، عمان اور مشرقی افریقہ کے سرحدی علاقوں سے ٹڈیوں کے ہجوم پاکستان ہجرت کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں