سندھ حکومت کا ڈاکٹر فرقان کی موت سے متعلق تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 05 مئ 2020
میران یوسف نے بتایا کہ سول ہسپتال کراچی اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں وینٹی لیٹرز اور بیڈز دستیاب ہیں—تصویر:ٹوئٹر
میران یوسف نے بتایا کہ سول ہسپتال کراچی اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں وینٹی لیٹرز اور بیڈز دستیاب ہیں—تصویر:ٹوئٹر

حکومت سندھ نے ڈاکٹر فرقان کی موت کا سبب بننے والی صورتحال کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈاکٹر فرقان کراچی میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے تیسرے ڈاکٹر تھے، اس حوالے سے ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ مبینہ طور پر بروقت وینٹی لیٹر نہ فراہم کیے جانے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ایک پیغام میں بتایا کہ اس بات کی تصدیق کی کہ انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے جو اپنی رپورٹ 24 گھنٹے میں جمع کروائے گی‘۔

یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر فرقان کورونا مریضوں کا علاج نہیں کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں کورونا وائرس سے ایک اور ڈاکٹر کی موت

اس ضمن میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر فرقان کو شہر کے کئی ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے باوجود آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت میسر نہ آ سکی جس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

وینٹی لیٹرز کی قلت کے حوالے سے جب سندھ حکومت کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تو صوبائی وزیر صحت کی میڈیا کوآرڈنیٹر میران یوسف نے بتایا کہ سول ہسپتال کراچی اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں وینٹی لیٹرز اور بیڈز دستیاب ہیں تاہم ہم نے واقعے کی انکوائری شروع کردی ہے۔

دوسری جانب انڈس ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر عبدالباری نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر فرقان نے علاج میں تاخیر کردی اور اس کی وجہ کورونا وائرس سے متعلق سماجی رویہ ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فرقان کی بھتیجی ہمارے ہستال (انڈس) میں کام کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے چچا پر ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے زور دیا تھا لیکن انہوں نے آس پڑوس میں یہ خبر پھیلنے کے خوف سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: کراچی:ڈاکٹر میں کورونا وائرس کی تصدیق کے باعث عباسی شہید ہسپتال کی ایمرجنسی بند

ڈاکٹر عبدالباری نے تصدیق کی کہ متوفی انڈس ہسپتال نہیں آئے تھے۔

واضح رہے کہ 30 اپریل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 8 ہیلتھ ورکرز کورونا وائرس کاشکار بن کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ملک میں طبی برادری میں ہوئی پہلی موت گلگت بلتستان میں سامنے آئی تھی جس میں نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض وائرس سے متاثر ہوکر چل بسے تھے۔

ملک میں جاں بحق ہونے والے ہیلتھ ورکرز میں سے 3 سندھ، 2 گلگت بلتستان اور بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں ایک ایک ہیلتھ ورکر جاں بحق ہوا۔

خیال رہے کہ ملک میں مجموعی طور پر اب تک کورونا وائرس کے باعث 505 اموات ہوچکی ہیں جبکہ متاثر ہونے والوں کی تعداد 21 ہزار 838 ہے، البتہ 5 ہزار 782 مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

ملک میں اس وقت سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہے اور وہاں 8189 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 148 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں