تمباکو کی مصنوعات کا ٹریکنگ سسٹم نصب کرنے کیلئے این آر ٹی سی کو دیا گیا لائسنس معطل

اپ ڈیٹ 07 مئ 2020
عدالت کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس قانون کے مطابق نئی بولی کے آغاز کا اختیار حاصل ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس قانون کے مطابق نئی بولی کے آغاز کا اختیار حاصل ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) کو ملک میں تمباکو کی مصنوعات کے ٹریکنگ اور ٹریسنگ نظام کو نصب کرنے کے لیے دیا گیا اربوں روپے کا لائسنس معطل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی لائسنس کے باعث ایف بی آر کو بولی لگانے کا عمل شروع کرنے کا اختیار حاصل تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیشنل انسٹیٹیوشنل فیسیلیٹیشن ٹیکنالوجیز (پرائیویٹ) لمیٹڈ (این آئی ایف ٹی) اور آتھینکٹس انکارپوریٹڈ کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا۔

مزید پڑھیں: بچ جانے والا سگریٹ بھی آپ کو نکوٹین سے متاثر کرسکتا ہے، تحقیق

کمپنیوں نے تنقید کی کہ 29 اکتوبر، 2019 کو ایف بی آر کے خط میں این آر ٹی سی کو 5 سال کے لیے فی کس 1000 ڈاک ٹکٹوں پر 731 روپے کی قیمت پر لائسنس دینے سے متعلق بتایا گیا تھا جسے لائنسنگ رولز، 2019، انویٹیشن فار لائسنسنگ (آئی ایف ایل) اور دیگر متعلقہ قوانین کی شرائط و ضوابط کے تحت ملک میں تمباکو مصنوعات کے ٹریکنگ اور ٹریسنگ سسٹم کو مکمل تنصیب کرنا تھا۔

3 نومبر 2004 کو پاکستان نے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کی توثیق کی تھی اور 29 جون، 2018 کو تمباکو کی مصنوعات میں غیرقانونی تجارت کے خاتمے کے لیے ایف سی ٹی سی پروٹوکول کی منظوری دی تھی۔

ایف یسی ٹی سی پروٹوکول کا آرٹیکل 8.2 کے تحت ملک میں تیار کی جانے والی، درآمد اور اس کے علاقے کے ذریعے منتقل ہونے والی تمام مصنوعات کے لیے ٹریکنگ اور ٹریسنگ نظام قائم کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کو اپنے ریونیو کی نگرانی اور تحفظ کی قومی ضرورت کو پورا کرنے، اپنی سرحدوں میں تمباکو کی مصنوعات کی اعلیٰ سطح کی غیرقانونی تجارت کے حل اور ایف سی ٹی سی کے بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اس منصوبے کا آغاز کرنا تھا۔

ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم تمباکو کی مصنوعات کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی ٹریک اور ٹریس کے نظام کا حصہ بنانا تھا۔

ریونیو میں کمی کو روکنے، تمباکو کی مصنوعات کی پیداوار اور فروخت کی رپورٹنگ میں ناکامی اور ان پر فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکس کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ایف بی آر کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عملدرآمد کے لائسنس کا مینڈیٹ دیا گیا تھا جسے لائسنس یافتہ کی جانب سے پاکستان میں تیار کی جانے والے تمباکو کی مصنوعات اور ان کی درآمد کے لیے تیار کرنے، آپریٹ اور برقرار رکھنے کی ضرورت تھی۔

6 اگست 2019 کو ایف بی آر نے آئی رولز اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے جاری آئی ایف ایل کے تحت ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی تیاری اور اسے فعال بنانے کے لیے 5 سال کی مدت کے لیے لائسنس دینے کی درخواستوں کے لیے اشتہار شائع کیا تھا جو سیلز ٹیکس رولز 2006 کے تحت جاری کیا جانا تھا۔

پاکستان پروکیورمنٹ رولز اتھارٹی (پی پی آر اے) کے تحت آئی ایف ایل میں بولی لگانے کا عمل فراہم کیا گیا تھا۔

بولی ایک ہی مرحلے کے ذریعے کی جانی تھی جس کے تحت اشتہار کی اشاعت کے 30 روز کے اندر 2 لفافے کے طریقہ کار اور مہر بند درخواستیں پہنچانے کی ضرورت تھی۔

لائسنس یافتہ ادارہ ٹریک اور ٹریس سسٹم نصب کرنے اور اس کے آپریشن کا ذمہ دار تھا جو سیگریٹ تیار کرنے والی سائٹس اور درآمدی اسٹیشنز کو ایف بی آر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک کرتا۔

ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں ملک بھر میں موجود سیگریٹ سپلائی چین کی ریئل ٹائم الیکٹرانگ مانیٹرنگ کے لیے ٹیکس اسٹامپز اور مربوط کوڈز کی فراہمی بھی شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سگریٹ کے پیکٹ پر 'انتباہ' کا سائز 85 فیصد کیا جائے، سول سوسائٹی

تکنیکی طور پر قابل بولی لگانے والے کو لائسنس دیا جانا تھا جس کی بولی سب سے کم ہوتی، اس حوالے سے مدت میں 5 ستمبر 2019 سے 27 ستمبر تک توسیع دی گئی تھی۔

27 ستمبر کو لائسنس کے لیے 13بولیاں جمع ہوئیں تھیں اور 5 کو غیر جوابدہ قرار دیا گیا تھا، این آئی ایف ٹی نے فی کس 1000 اسٹامپس پر 868.36 روپے، آتھینٹکس نے 1000 اسٹامپس پر ایک ہزار 250 روپے اور این آر ٹی سی 1000 اسٹامپس پر 0.731 روپے کی بولی لگائی تھی۔

15 اکتوبر 2019 کو بولی کی رپورٹ بی بی آر اے کی ویب سائٹ پر لگائی گئی تھی لیکن 17 اکتوبر کو این آر ٹی سی نے ایف بی آر کو آگاہ کیا ایک غلطی کے نتیجے میں انہوں نے 0.731 روپے لکھا تھا اور اس یونٹ پرائس کو 1000 سے ضرب دینے پر 731 روپے فی 1000 اسٹامپس بنتے ہیں۔

مزید برآں این آر ٹی سی نے ایف بی آر کو بعد میں ایویلیوایشن رپورٹ میں ترمیم کی درخواست کی تھی کہ قیمت کو فی کس 1000 اسٹامپس پر 731 روپے کیا جائے۔

این آئی ایف ٹی نے ایک تحریری درخواست میں عدالت کی توجہ 14 اکتوبر 2019 کی اسی رپورٹ کی جانب دلائی تھی کہ این آئی ایف ٹی تکنیکی طور پر اہل تھا اور ان کی بولی فی 1000 اسٹامپ پر 868.36 روپے تھی چونکہ این آر ٹی سی کی بولی 0.731 روپے فی 1000 اسٹامپس تھی تو وہ تکنیکی طور ہر اہل نہیں تھے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ این آئی ایف ٹی کی بولی دوسرے نمبر پر تھی اور این آر ٹی سی کی جانب سے 0.731 روپے فی 1000 اسٹامپس کی بولی کو غلطی کا نتیجہ قرار دیے جانے کے بعد انہیں لائسنس دیا جانا تھا۔

مذکورہ معاملے پر فیصلہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ بولی میں غلطی درست کرنے کی این آر ٹی سی کی درخواست کو اجازت دینے کے لیے اپنایا جانا والا مادی بے قاعدگی اور غیر معقولیت کا شکار ہوا۔

تاہم عدالت نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس قانون کے مطابق نئی بولی کے آغاز کا اختیار حاصل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں