'لاک ڈاؤن سے متعلق وفاق کے ساتھ چلیں گے، پیر سے فجر سے شام 5 تک دکانیں کھلیں گی'

اپ ڈیٹ 08 مئ 2020
مراد علی شاہ کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں میں 598 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا جس کے بعد وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 9 ہزار 691ہوگئی -فوٹو:ڈان نیوز
مراد علی شاہ کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں میں 598 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا جس کے بعد وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 9 ہزار 691ہوگئی -فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے متعلق وفاق کے ساتھ چلیں گے، پیر(11 مئی) سے فجر سے شام 5 تک دکانیں کھلیں گی لیکن 9 مئی سے پہلے جو کاروبار اور دفاتر بند تھے وہ بند رہیں گے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ شہری گھروں پر رہیں، جب بھی باہر جائیں ماسک پہننے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور ذیابیطس سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد باہر جانے سے گریز کریں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 24 گھنٹے میں ہم نے 5 ہزار 532 ٹیسٹ کیے جس کے بعد مجموعی طور پر 81 ہزار 810 ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 598 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا جس کے بعد صوبے میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 9 ہزار 691 ہوگئی۔

مزید پڑھیں: سندھ: تمام کاروبار، آفس جو 9 مئی تک بند تھے بدستور بند رہیں گے، مرتضیٰ وہاب

انہوں نے کہا کہ 87 افراد صحتیاب ہوئے جس کے بعد صوبے میں ایک ہزار 940 لوگ وائرس کو شکست دے چکے جبکہ 5 لوگ وفات پاگئے ہیں جس سے اموات کی مجموعی تعداد 176 ہوگئی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے میں 7 ہزار 575 ایکٹو مریض ہیں، ان میں 6 ہزار 421 گھروں میں آئسولیشن میں ہیں، 687 حکومت کے آئسولیشن مراکز میں ہیں اور 527 افراد مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس وقت 527 افراد ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں 91 انتہائی نگہداشت میں ہیں ان میں سے 18 وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میں نئے کیسز کی تعداد 413 ہے، اب تک ضلع جنوبی میں107 نئے کیسز کے ساتھ ایک ہزار 681 کیسز، ضلع شرقی میں ایک ہزار 492 ،ضلع وسطی میں ایک ہزار 305 کیسز، ضلعی غربی میں 857، ضلع ملیر میں 814 اور ضلع کورنگی میں 670 کیسز کی تصدیق کی جاچکی ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ حیدرآباد میں 399، خیرپور میں 254، لاڑکانہ میں 257، سکھر میں مجموعی طور پر کورونا کے 518 کیسز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بیرون ملک پھنسے 2 ہزار 369 پاکستانیوں کو واپس لایا جاچکا ہے جن میں سے 22 فیصد کے قریب 516 کے کورونا ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے جو ہمارے آئسولیشن مراکز میں موجود ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2 ہزار 369 میں سے 40 سے 45 فیصد افراد کا تعلق صوبہ سندھ تھا جبکہ 55 سے 60 فیصد دوسرے صوبوں کے تھے جنہیں معیاری طریقہ کار کے تحت گھروں کو روانہ کیا گیا۔

'کورونا کے پہلے کیس کے ساتھ لاک ڈاؤن نافذ کیا'

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 26 فروری کو کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور اس کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے 4 دن کے لیے اسکولز کو بند کردیا تھا جس کے بعد اسکولز کی بندش میں یکم مارچ کو توسیع کردی تھی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ 13 مارچ کو صوبائی کابینہ نے یکم جون تک اسکولز بند کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد 14 مارچ کو عوامی مقامات کی بندش سمیت دیگر اعلانات کیے گئے تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے عوامی مقامات کی بندش کے اعلان کے بعد دیگر صوبوں کی جانب سے بھی ایسے ہی اقدامات کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں 253 بچے کورونا وائرس کا شکار

انہوں نےکہا کہ 16 مارچ کو 9 بجے سے پہلے ریسٹورنٹ بند کرنے جبکہ اشیائے ضروریہ اور فارمیسز کھولنے کے احکامات جاری کیے جبکہ 17 مارچ سے شاپنگ مالز، ساحل سمندر، پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش نافذ کی اور گورنر سندھ صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے 22 مارچ سے لاک ڈاؤن میں بتدریج سختی کی گئی۔

مراد علی شاہ نے یہ تمام اقدامات ڈاکٹروں اور عالمی ادارہ صحت سے بات چیت کے بعد اٹھائے گئے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حال ہی میں یہ کہا گیا کہ سندھ میں لاک ڈاؤن کرکے وفاق سے ٹکراؤ چاہ رہے ہیں لیکن یکم اپریل کے لاک ڈاؤن کا اعلان وفاق نے خود کیا تھا تو کیا وفاق خود اپنے ساتھ لڑرہی تھی؟

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہماری ایک میٹنگ 7 یا 8 اپریل کو ہوئی اور پھر 14 اپریل کے اجلاس میں لاک ڈاؤن میں مزید توسیع اور تعمیراتی صنعت کھولنے کا اعلان کیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس اجلاس میں وزیراعظم نے صوبوں کو اختیار دیا تھا کہ صورتحال دیکھ کرفیصلہ کرسکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بعدازاں ایک اور اجلاس میں لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی تھی، ہماری ایس او پیز زیادہ تر وفاق کے کہے کے مطابق تھی تو کیا اسد عمر کو وزیراعلیٰ سندھ نے لکھ کردیا تھا کہ کیا کہنا تھا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 6 مئی کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن(این سی او سی) کا اجلاس ہوا اور اس سے پہلے تمام وزرائے اعلیٰ کے درمیان مشاورت ہوئی تھی، ہماری کچھ چیزیں وفاق کو پسند نہیں ہم پھر بھی ساتھ کام کررہے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کی جانب سے دی گئی دستاویز پر 90 فیصد اتفاق ہوا اور سندھ سے وفاق کی بات پر سب سے زیادہ اتفاق کیا۔

'جذبات کے بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں'

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی ) کے اجلاس ہوا جس میں ہم نے اپنا نکتہ نظر دیا اور وفاق نے اپنا پلان پیش کیا، اجلاس کے دوران میں نے کہا تھا کہ ہمیں جذبات کے بجائے اعداد و شمار اور زمینی حقائق کی بنیاد پر فیصلے لینے چاہیئیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ روز اجلاس میں دیگر ممالک کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ ایران کے کیسز 19 سے 20 فروری سے سامنے آنا شروع ہوئے اور انہوں نے 14 مارچ کو لاک ڈاون لگایا اس وقت وہاں میں 987 کیسز اوسط سامنے آرہے تھے جبکہ کیسز کی تعداد میں کمی کے بعد لاک ڈاؤن کھولا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرمنی میں اس وقت لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا جب کیسز کی تعداد یومیہ 3 ہزار تھے، اٹلی نے اس وقت نافذ کیا جب روزانہ 1600 کیسز سامنے آرہے تھے جبکہ امریکا میں اس یومیہ 18 ہزار کیسز سامنے آنے کے بعد لاک ڈاؤن نافذ ہوا تھا اس لیے وہاں صورتحال خراب ہوئی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان

مراد علی شاہ نے کہا کہ جب انسان حالت جنگ میں ہوتا ہے تو باقی چیزیں پیچھے چلی جاتی ہیں۔

'روزانہ اجرت کمانے والوں کو رجسٹر کرنا چاہیے تھا'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا تو بھی کیسز کی تعداد ابھی بھی سست روی سے اوپرجارہی ہے، 14 اپریل کو ہم نےکچھ کاروبار کھولنے کی اجازت دی تھی اور ہم 660 صنعتیں کھول چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم کاروبار بند نہیں کرنا چاہتے اور نہ کسی سے ہماری دشمنی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبوں اور وفاق کو یومیہ اجرت کمانے والوں اور مزدوروں کی لاک ڈاؤن میں مدد کے لیے انہیں رجسٹر کرنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ ہم نے غلطی کی ہے تاہم اگر صورتحال کو دیکھیں تو ہم سب نے غلطی کی ہے‘۔

'وفاق کے فیصلے قبول کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں'

انہوں نے کہا کہ وفاق کے ساتھ تعمیراتی صنعت کا فیز ٹو کھولنے، مخصوص او پی ڈیز کھولنے، فجر کے بعد سے شام 5 بجے تک دکانیں کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے ہفتے میں 3 روز 100 فیصد لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی تجویز دی تھی لیکن 2 روز کے لیے دکانیں بند کرنے پر اتفاق ہوا اور ہفتہ اور اتوار کو 100 فیصد لاک ڈاؤن ہوگا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں اور گلی محلوں کی تمام دکانیں کھلیں گی جبکہ شاپنگ مالز اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز بند رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعلیٰ سندھ کی ہفتے میں 4 روز کاروبار کھولنے کی اجازت

انہوں نے کہا کہ تاجر برادری سے رابطے میں ہیں اور میڈیا کے توسط سے کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت انہیں قرضے دے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جو بھی کاروبار اور دفاتر 9 مئی سے پہلے بند تھے وہ بعد میں بھی بند رہیں گے، اجتماعات، سنیما اور عوامی مقامات بند رہیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ طریقہ کار 31 مئی تک نافذ رہے گا، میں وفاق کے یہ فیصلے قبول کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں لیکن قومی سلامتی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام میں ہم وفاق کے فیصلے پر 100 فیصد عمل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ کورونا وائرس سے مررہےہیں تو ویسے بھی مرجاتے ہیں لیکن لوگ تو دہشت گردی سے بھی مرتے تھے تو ہم نے نیشنل ایکشن پلان کیوں بنایا،لوگ ٹریفک حادثات میں بھی مرتے ہیں، ہمیں اس سے اسی طرح نمٹنا چاہیے تھا۔

'گھر پر رہیں اگر آپ رہ سکتے ہیں تو'

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے اقدامات اٹھائے جانے کے ساتھ ساتھ عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جتنا ممکن ہوسکے گھروں پر ہی رہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ کہ اگر آپ کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، جیسا کہ حکومت کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں، تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ معیاری طریقہ کار پر عمل کریں۔

انہوں نے عوام سے اپنی اور اپنے بزرگوں کا خاص خیال رکھنے کی گزارش کی جنہیں اس بیماری سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں