ترکی میں کورونا مریضوں کی کھوج کیلئے ڈاکٹرز کی جاسوس ٹیمیں تشکیل

اپ ڈیٹ 10 مئ 2020
جاسوس ٹیمیں ڈاکٹرز و طبی عملے پر مشتمل ہیں—فوٹو: ای پی اے
جاسوس ٹیمیں ڈاکٹرز و طبی عملے پر مشتمل ہیں—فوٹو: ای پی اے

کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر اسلامی ملک ترکی نے وبا سے نمٹنے کے لیے قدرے منفرد طریقہ اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی جاسوس ٹیمیں تشکیل دے دیں۔

ترکی اسلامی ممالک میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، جہاں 10 مئی کی شام تک ایک لاکھ 37 ہزار افراد وبا میں مبتلا ہوچکے تھے تاہم ترکی میں ہلاکتوں کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں کم دیکھا جا رہا ہے۔

یہاں تک ترکی میں کورونا سے ہلاکتیں ایران سے بھی کم ہوئی ہیں جب کہ ایران میں ترکی سے کم مریض ہیں۔

ایران میں 10 مئی کی شام تک کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 7 ہزار تک جا پہنچی تھی اور وہاں ہلاکتوں کی تعداد 6 ہزار 640 سے تجاوز کر چکی تھی۔

جب کہ ترکی میں ایران سے 30 ہزار سے زیادہ مریض ہونے کے باوجود وہاں 10 مئی کی شام تک ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 700 تک تھی جو ایران کے مقابلے میں نصف تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترکی تیار تھا!‘

اسی طرح ترکی میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کا تناسب بھی زیادہ دیکھا جا رہا ہے اور حکومت کے مطابق وہاں 10 مئی تک صحت یاب مریضوں کی تعداد 90 ہزار کے قریب تھی۔

اگرچہ اس وقت ترکی اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے تاہم اس کے باوجود ترکی نے 11 مئی کو لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا اعلان کردیا ہے، کیوں کہ حکومت کے بقول ان کی جاسوس ٹیمیں اچھی طرح سے ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

دراصل ترکی کی حکومت نے کورونا کے پھیلاؤ کے آغاز میں ہی ڈاکٹرز اور طبی عملے پر مشتمل ایسی جاسوس ٹیمیں تشکیل دی تھیں جنہوں نے گھر گھر جاکر مریضوں کے ٹیسٹ کیے اور متاثرہ افراد کی معلومات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مزید جاسوسی کرکے نئے مریضوں کی کھوج لگائی۔

جاسوس ٹیمیں گھر گھر جاکر مریضوں کی کھوج لگاتی ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
جاسوس ٹیمیں گھر گھر جاکر مریضوں کی کھوج لگاتی ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک حکومت نے وزارت صحت کے ماتحت ملک بھر میں کورونا کے مریضوں کی کھوج لگانے کے لیے 4 سے 5 افراد کے عملے پر مشتمل 6 ہزار ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔

مذکورہ ٹیموں میں ڈاکٹرز سمیت انتہائی پیشہ ور طبی عملے کے ارکان شامل ہیں جو گھر گھر جاکر مشکوک افراد سے معلومات لینے کے بعد ان کا ٹیسٹ کرتے ہیں اور ٹیسٹ مثبت آنے پر حاصل کی گئی معلومات کے مطابق مزید جاسوسی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ٹیمیں معلومات ملنے یا شک ہونے پر کہیں بھی پہنچ جاتی ہیں اور ان افراد سے ابتدائی طور پر سوالات کرتی ہیں جن میں انہیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ وبا کے مریض ہو سکتے ہیں۔

اگر معلومات کے دوران مشکوک افراد کے سوالات ٹیم کے طے شدہ معیار کے مطابق اترتے ہیں تو وہ نہ صرف مشکوک شخص کا ٹیسٹ کرتے ہیں بلکہ ایسے افراد کو 2 ہفتوں تک قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت بھی کرتے ہیں۔

ترکی کے وزیر صحت فخر الدین کوسا نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ان جاسوس ٹیموں کو حکومت کی کامیاب حکمت عملی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ان ٹیموں کی کارکردگی سے محلوں اور گھروں میں موجود مریضوں کا پتہ لگانے میں آسانی ہوئی اور وبا کے پھیلاؤ کو بھی روکنے میں مدد ملی۔

جاسوس ٹیمیں کیسے کام کرتی ہیں؟

ترکی بھر میں 6 ہزار جاسوس ٹیمیں کام کر رہی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
ترکی بھر میں 6 ہزار جاسوس ٹیمیں کام کر رہی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جاسوس ٹیمیں استنبول اور انقرہ سمیت ملک کے تمام علاقوں میں کام کر رہی ہیں اور ایسی ٹیموں کے کام سے ضلع فتح جیسے علاقوں میں حکومت کو نمایاں کامیابیاں بھی ملی ہیں۔

ضلع فتح کے شعبہ عوامی صحت کے ڈائریکٹر ملک نور اسلان کے مطابق مریضوں کی کھوج لگانے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے پر مشتمل یہ جاسوس ٹیمیں درحقیقت اصل جاسوسی کے کام کر رہی ہیں اور ان کے کام سے کئی مریض سامنے آئے۔

عام طور پر ہر ایک ٹیم یومیہ 4 سے 5 کیسز کی تفتیش کرتی ہے، جس میں سے اگر کسی شخص کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات ٹیم کی جانب سے بنائے گئے سوالنامے پر پورا اترتی ہے تو اس شخص کا ٹیسٹ کرنے سمیت انہیں قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: ترکی میں کورونا وائرس سے مزید 57اموات

مذکورہ ٹیم گھر سے ہی کسی بھی مشکوک شخص کے ٹیسٹ کے لیے نمونے لے کر اسے لیبارٹری بھجوا دیتی ہے اور وہی ٹیم مذکورہ شخص کو ٹیسٹ نتائج سے آگاہ کرتی ہے۔

ٹیسٹ مثبت آنے پر مذکورہ شخص کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق مزید تفتیش کرکے ان افراد سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے، جن سے متاثرہ شخص نے 48 گھنٹوں میں رابطہ کیا ہوتا ہے۔

یوں جاسوس ٹیمیں ان افراد کا بھی معائنہ کرنے سمیت ضرورت پڑنے پر ٹیسٹ بھی کرتی ہیں جو متاثرہ مریض سے پہلے مل چکے ہوتے ہیں۔

جاسوس ٹیموں پر خدشات

انسانی حقوق کے کارکنان نے ٹیموں پر ڈیٹا اکٹھے کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
انسانی حقوق کے کارکنان نے ٹیموں پر ڈیٹا اکٹھے کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

جہاں ترک حکومت کے عہدیدار وزیر کورونا کے مریضوں کی کھوج لگانے والی ان جاسوس ٹیموں کو انتہائی مؤثر حکمت عملی قرار دے رہے ہیں، وہیں بعض انسانی حقوق کے رہنماؤں نے ان ٹیموں پر خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔

بعض کارکنان کے مطابق حکومت کورونا کے مریضوں کی کھوج لگانے کے نام پر جاسوسی کرکے لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔

تاہم دیکھا جائے تو ان جاسوس ٹیموں سے ترکی کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ روکنے میں مدد ہی ملی ہے اور اس حکمت عملی کو ملک میں کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے سمیت اسی طریقے کے تحت لاک ڈاؤن کو نرم کرنے میں بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

عوامی صحت کے ڈائریکٹر ملک نور اسلان کہتے ہیں کہ ان جاسوس ٹیموں کے حوالے سے خدشات غلط ہیں کیوں کہ ان ٹیموں کو خصوصی طور پر صحت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ہی اجازت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی: اپوزیشن کا لاک ڈاؤن کیلئے صدر اردوان پر دباؤ

انہوں نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ترکی میں اس طرح کا کام کیا جا رہا ہو، اس سے قبل بھی ایسی ہی طبی جاسوس ٹیموں کے ذریعے دیگر بیماریوں کا ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا اور یہ حکمت عملی ماضی میں بھی کامیاب رہی۔

کورونا کے مریضوں کی کھوج لگانے کے لیے بنائی گئی جاسوس ٹیموں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ وہ تفتیش کے دوران کورونا کے شکار ہوجانے والے مریضوں سے اس وقت تک رابطے میں رہتے ہیں جب تک کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہوجاتے۔

کورونا کے مریضوں کی کھوج لگانے والی ترکی کی 6 ہزار جاسوس ٹیموں میں سے 1200 جاسوس ٹیمیں ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول میں کام کر رہی ہیں جب کہ دیگر شہروں میں بھی ان ٹیموں کا کام درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

جاسوس ٹیمیں ہر کیس کی مکمل تفتیش کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
جاسوس ٹیمیں ہر کیس کی مکمل تفتیش کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں