چوہدری برادران کی نیب کے خلاف اپیل پر سماعت کیلئے نیا بینچ تشکیل

اپ ڈیٹ 11 مئ 2020
چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین—فائل فوٹو: اے ایف پی
چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی (چوہدری برادران) کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے اختیارات اور اپنے خلاف انکوائریز پر دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ میں جسٹس فاروق حیدر کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔

بعد ازاں بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی، جس کے بعد نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پاس گیا تھا۔

بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری برادران کے کیسز کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

مزید پڑھیں: نیب نے زیرالتوا انکوائریز پر چوہدری برادران کا مؤقف مسترد کردیا

اس دو رکنی بینچ میں جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس اسجد گھرال شامل ہوں گے۔

خیال رہے کہ 7 مئی کو کیس کی پہلی سماعت میں لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ نے چوہدری برادران کا کیس سنے والے بینچ پر اعتراض اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر چوہدری برادران کے کیسز کی پیروی کرتے رہے ہیں لہٰذا یہ بینچ چوہدری برادران کا کیس نہ سنے۔

جس پر بینچ کے دوسرے رکن جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا تھا کہ انہوں نے کیس کی فائل ابھی پڑھی نہیں ہے بہتر ہے اس کیس کو 11 مئی کے لیے رکھ لیا جائے، جس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

چوہدری برادران کی درخواست

خیال رہے کہ 6 مئی کو چوہدری برادران نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے اختیارات کے غلط استعمال اور اپنے خلاف 20 سالہ پرانی 3 تحقیقات کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں اپنے وکیل امجد پرویز کے توسط سے دائر کی گئیں 3 ایک جیسی درخواستوں میں مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے مؤقف اپنایا تھا کہ سال 2000 میں مذکورہ بیورو کے چیئرمین نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت درخواست گزاروں کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، آمدن سے زائد اثاثے سے متعلق انکوائریز کی منظوری دی۔

تحریک انصاف کے اتحادیوں کی جانب سے دائر اس درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ نیب کا قیام، اس کی ساکھ، برابری اور اس کا 'سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال' نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور دانشوروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

درخواست گزاروں کے مطابق سال 2017 اور 2018 میں جب ان کے حریف اقتدار میں تھے تب نیب کے ریجنل بورڈ اور تفتیشی افسران کی جانب سے تینوں انکوائریز کو بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ تاہم چیئرمین نیب نے 2019 میں ہمارے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے کی 19 سال بعد دوبارہ منظوری دے دی۔

چوہدری برادران نے عدالت سے ان انکوائریز کی منظوری کو کالعدم قرار دینے اور چیئرمین نیب کی جانب سے دیے گئے احکامات کو غیرقانونی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

نیب کا مؤقف

بعد ازاں قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اپنے خلاف زیر التوا کچھ انکوائریز سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں میں اپنائے گئے مؤقف کو مسترد کردیا تھا۔

ایک بیان میں نیب اسلام آباد نے شکایت کی تھی کہ چوہدری برادران کے خلاف انکوائریز کو بنیاد بنا کر ادارے کو ایک نہ ختم ہونے والے 'پروپیگینڈا' کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کے اختیارات کیخلاف اپیل پر سماعت، بینچ کے رکن پر اعتراض

بیان میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کی جانب سے ان کیسز پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا یا کوئی ایسا حکم جاری کیا گیا جسے عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکے۔

نیب کی جانب سے مزید کہا گیا تھا کہ تمام پرانے کیسز میں معمول کے طریقے کے تحت تحقیقات کی گئی تھی چونکہ انہیں غیرمعینہ مدت کے لیے بند کرکے نہیں رکھا جاسکتا۔

ساتھ ہی احتساب کے ادارے نے کہا تھا کہ وہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں، لہٰذا میڈیا قیاس آرائیوں سے گریز کرے اور زیر التوا کیسز سے متعلق خبر نشر یا شائع کرنے سے پہلے ترجمان سے مؤقف لے لیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں