افغانستان میں داعش جنوبی ایشیا کے سربراہ سمیت 3 خطرناک دہشت گرد گرفتار

اپ ڈیٹ 12 مئ 2020
افغان سیکیورٹی فورسز نے کابل میں کارروائی کے دوران ان اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا— فائل فوٹو: رائٹرز
افغان سیکیورٹی فورسز نے کابل میں کارروائی کے دوران ان اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا— فائل فوٹو: رائٹرز

افغانستان میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں داعش کے سربراہ سمیت دہشت گرد تنظیم کے 3 اہم اراکین کو گرفتار کر لیا۔

وزارت داخلہ اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیکیورٹی کی جانب سے جاری بیان میں گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گرد تنظیم کے سربراہ ابو عمر خراسانی سمیت ان کی خفیہ ٹیم کے سربراہ اور پبلک ریلیشن آفیسر کو کابل میں گرفتار کر لیا گیا۔

مزید پڑھیں: امریکا کی طالبان کو پرتشدد واقعات نہ روکنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی

بیان میں کہا گیا کہ نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سروسز خطے میں دہشت گرد تنظیموں کے اہم رہنماؤں کی گرفتاری اور ان تنظیموں کے مشترکہ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے کارروائی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

داعش کے جنوبی ایشیائی گروپ کی افغانستان میں زیادہ بڑے پیمانے پر موجودگی نہیں البتہ گروپ کی جانب سے حالیہ عرصے میں کابل میں کیے جانے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے افغان سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ کابل میں دہشت گرد حملوں میں ملوث داعش اور حقانی نیٹ ورک کے 8 دہشت گردوں سمیت ایک سکھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، طالبان امن مذاکرات، کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں تاریخی معاہدہ ہوا تھا البتہ ملک میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے سبب ملک میں پائیدار امن کا قیام خطرے میں پڑ گیا ہے۔

معاہدے کے بعد سے طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اس کے برعکس غیر ملکی افواج پر حملوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

پیر کو ملک میں سڑک کنارے نصب چار بم دھماکے ہوئے جس میں ایک بچے سمیت کم از کم 4 شہری زخمی ہوئے لیکن کسی بھی گروپ نے ان دھماکوں کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

اس کے علاوہ مشرقی صوبے مغمان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں 6 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔

مقامی فوج کے ترجمان ہارون یوسزئی نے ان حملوں کی تصدیق کی جبکہ وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں طالبان کو بھی بھاری جانی نقصان ہوا۔

افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر امریکا نے طالبان سے حملے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر طالبان نے افغانستان سیکیورٹی فورسز پر حملے بعد نہ کیے تو وہ ان کا دفاع کرنے اور طالبان پر جوابی حملے کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت نے مزید 100 طالبان قیدی رہا کردیے، مجموعی تعداد 300 ہوگئی

ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کیے جا رہے لیکن معاہدے کے بعد سے ان کی جانب سے مقامی فورسز پر مسلسل حملے کیے جاری ہیں اور وہ اب اوسطاً روزانہ 55 حملے کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں