سندھ میں جسقم-اے سمیت 2 علیحدگی پسند تنظیمیں کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 12 مئ 2020
ان تینوں گروپس کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ان تینوں گروپس کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے سندھ کی ایک قوم پرست اور دو علیحدگی پسند تنظیموں پر پابندی عائد کردی جس کے بعد ملک میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 76 تک پہنچ گئی۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جئے سندھ قومی محاذ اریسر گروپ (جسقم-اے)، سندھو دیش ریولوشن آرمی (ایس آر اے) اور سندھو دیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) کو رواں سال کے دوران کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

واضح رہے کہ کالعدم تنطیموں کی فہرست بنانے کا عمل 14 اگست 2001 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، بعد ازاں 14 جنوری 2002 کو حکومت نے جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی پر پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: حکومت نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کیلئے حکم جاری کردیا

تحریک جعفریہ پاکستان کو جنوری 2002 میں اس فہرست میں شامل کیا گیا جس کے بعد 17 مارچ 2003 کو القاعدہ، 15 نومبر 2003 کو ملت اسلامیہ پاکستان، خدام السلام اور اسلامی تحریک پاکستان کو کالعدم قرار دیا گیا۔

اس کے علاوہ 20 نومبر 2003 کو مزید 3 تنظیمیں جماعت الانصار، جماعت الفرقان اور حزب التحریر پر پابندی عائد کی گئی جبکہ 27 اکتوبر 2004 کو خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ کو کالعدم قراد دے دیا۔

علاوہ ازیں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو اس فہرست میں 7 اپریل 2006 کو شامل کیا گیا جبکہ اگست 2006 میں اسلامک اسٹودنٹس موومنٹ آف پاکستان کو بھی اسی فہرست کا حصہ بنادیا گیا۔

بعد ازاں 30 جون 2008 کو لشکر اسلام، انصار الاسلام اور حاجی نامدار گروپ پر پابندی عائد کی گئی اور پھر 25 اگست 2008 کو تحریک طالبان پاکستان کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

8 ستمبر 2010 میں بلوچستان سے 5 عسکریت پسند تنظیموں بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔

گلگت سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکز سبیل آرگنائزیشن اور تنظیم نوجوانان اہل سنت سمیت کراچی میں پیپلز امن کمیٹی (لیاری) کو 10 اکتوبر2011 کو کالعدم قرار دیا گیا۔

اس کے علاوہ 15 فروری 2012 کو سپاہ صحابہ پاکستان کی نئی تشکیل اہل سنت و الجماعت پر پابندی عائد کی گئی، جس کے بعد 6 مارچ 2012 کو الحرمین فاؤنڈیشن اور رابطہ ٹرسٹ، 24 اپریل 2012 کو (گلگت بلتستان سے) انجمن اسلامیہ اور مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو فہرست میں شامل کیا گیا۔

مزید یہ کہ 5 جون 2012 کو تنظیم اہل سنت والجماعت (گلگت بلتستان) کو فہرست میں شامل کیا گیا جبکہ 4 اگست 2012 کو بلوچستان بنیاد پرست آرمی، تحریک نفاذ امن، تحفظ حدود اللہ، بلوچستان واجا لبریشن آرمی، اسلام مجاہدین، جیش اسلام اور بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی پر پابندی لگائی گئی۔

2013 میں اس فہرست کو مزید بڑھایا گیا اور اس میں 13 مارچ کو خانہ حکمت گلگت بلتستان کو شامل کیا گیا جبکہ 15 مارچ 2013 کو تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان مہمند، طارق جیدار گروپ، عبداللہ اعظم بریگیڈ، ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، اسلامک جہاد یونین، 313 بریگیڈ، تحریک طالبان باجوڑ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر (حاجی نمدار گروپ)، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن-آزاد، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور جئے سندھ متحدہ محاذ کو کالعدم قرار دیا گیا۔

اس کے بعد سے 15 جولائی 2015 تک اس فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی تاہم پھر داعش کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔

11 نومبر 2016 کو جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو جبکہ 30 دسمبر 2016 کو انصارالحسین کو اس فہرست کا حصہ بنایا گیا۔

بعد ازاں سال 2017 میں تحریک آزادی جموں کشمیر اس فہرست میں شامل ہونی والی واحد تنظیم تھی اور اسے 8 جون کو کالعدم قرار دیا گیا۔

سال 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے اپنے دور میں جس آخری تنظیم کو کالعدم قرار دیا وہ جنداللہ تھی۔

اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس فہرست میں پہلا اضافہ 13 دسمبر 2018 کو ہوا اور یمن سے تعلق رکھنے والی الرحمٰن ویلفیئر ٹرسٹ آرگنائزیشن کو کالعدم قراد دے دیا گیا۔

2019 میں جس پہلی تنظیم پر پابندی عائد کی گئی وہ بلوارستان نیشنل فرنٹ (عبدالحمید خان گروپ) تھا اور 26 فروری کو اس پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

ملک میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی کا فیصلہ 21 فروری 2019 کو وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے قومی سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تاہم اس کا باضابطہ نوٹیفکشین وزارت داخلہ کی جانب سے 5 مارچ 2019 کو جاری کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تنظیموں سے ’تعلق‘ پر مزید 10 اداروں پر پابندی

تاہم 2 ماہ سے زائد کے وقفے کے بعد جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سے منسلک 7 تنظیموں کو ان کی پیرنٹ تنظیموں کے ساتھ ہی فہرست میں شامل کیا گیا۔

اس کے علاوہ 18 اپریل 2019 میں پاک ترک انٹرنیشنل سی اے جی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔

26 جولائی 2019 کو حزب الاحرار اور بلوچستان راجی اجوڑی-آر- سانگر (بی آر اے ایس) کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

علاوہ ازیں 29 مارچ 2017 سے معمار ٹرسٹ کمیٹی اور 30 مئی 2017 سے غلامان صحابہ واچ لسٹ میں شامل ہیں۔

مزید برآں گزشتہ برس جون میں سچل سرمست ویلفیئر ٹرسٹ کراچی اور الجزا پیشنٹ ویلفیئر آرگنائزیشن کو واچ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔

اسی طرح دسمبر 2005 سے الاختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد 1267 کے تحت فہرست میں شامل ہیں۔


یہ خبر 12 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں