وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کورونا وائرس پر بات کرنے کے بجائے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سیشن سے جو توقعات تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ 'اسمبلی میں بیماری کو ہدف بنانے کے بجائے حکومت کو نشانہ بنایا گیا جس سے اس اجلاس سے جو توقع تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں بہت ساری چیزوں کے علاوہ اللہ کا شکر بھی بجا لانا چاہیے کیونکہ بہت سی مشکلات کے باوجود ہمارے ملک میں بیماری کا پھیلاؤ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نہیں ہے'۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 'اسپین میں 30 ہزار اور امریکا میں 80 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں لیکن ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے گوکہ ایک موت بھی تکلیف دہ ہے تاہم یہاں 700 اموات ہیں یہ بھی بہت زیادہ ہے اتنا نہیں ہونا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تنقید کرنے والوں نے کیا اس چیز کی پروا کی کہ لوگ لاک ڈاؤن کے اثرات عام آدمی پر کیا ہوں گے، اور یومیہ مزدوری پر جانے والے یا دکاندار کے حالات کی پروا کی'۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے شروع میں کہا تھا کہ بیماری کا مقابلہ کریں گے اور ہم مقابلہ کررہے ہیں، تعلیمی ادارے، شادی ہالز ٹرانسپورٹ سب کچھ بند کردیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری سوچ تھی کہ معیشت اور لوگوں کے روزگار کے لیے کچھ نہیں کیا تو حالات بہت برے ہوں گے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں جلسے جلوس ہورہے ہیں کیونکہ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں دیکھیں تو وہاں بھی احتجاج ہورہا ہے، اگر یورپ میں دیکھیں تو وہاں بھی احتجاج ہورہا ہے، بھارت میں لوگ سڑکوں میں چلتے چلتے مرگئے اس لیے کہ وہ غریب تھے، یہ آفت غریبوں پر آئی ہے کیونکہ ان کی روزگار کو زیادہ متاثر کیا ہے۔

وفاقی حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ہم سب کو ساتھ لے کر چلے، وزیراعظم نے قومی رابطہ کمیٹی بنائی جس میں تمام وزرائے اعلیٰ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شامل کیا پھر ایک اور کمیٹی کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر بنائی اور روزانہ اس کا اجلاس ہوتا ہے اور صوبائی نمائندے شریک ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہورہا ہے اور جائزہ لیا جارہا ہے لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ کنفیوژن ہے، کیا غریب کا خیال رکھنا اور جس کے پاس کھانے کو نہیں ہے اس کا خیال رکھنا کنفیوژن ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'غریب عوام کے حوالے سے یہ جو بے حسی ہے اس پر افسوس کرنا چاہیے، ہمیں کہا گیا کہ صوبوں کی مدد نہیں کی گئی، ایک طرف اٹھارویں ترمیم ہے جو آئین کا حصہ ہے اسی لیے اس کی قدر کرتے ہیں لیکن کہا گیا کہ خبردار اٹھارویں ترمیم کا ذکر بھی نہ چھیڑیں'۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ سندھ نے جو آرڈیننس منظور کیا اس میں ایسی چیزیں ہیں جس کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے، بجلی کی قیمت کم کرنا، اٹھارویں ترمیم غور سے پڑھیں تو بجلی صوبائی معاملہ نہیں ہے۔

سندھ حکومت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق نے مدد کی اورچیزیں بھیجوائیں لیکن آپ کی ذمہ داری ہے، ایک طرف اٹھارویں ترمیم کا واویلا اور دوسری طرف خود اٹھارویں ترمیم سے تجاوز، یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

'ریڈیو اسکول شروع کررہے ہیں'

انہوں نے کہا کہ تعلیم کے میدان میں ہم نے کوشش کی سب کو ساتھ لے کر چلیں اور ساتھ لے کر چلے، اسکول بند کرنے، امتحانات کے حوالے سے فیصلے مل کر کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے 15 دن بعد ہم نے ٹیلی اسکول شروع کیا جو روزانہ 10 گھنٹے بچوں کو لیکچر دیے جاتے ہیں اور والدین کو آگاہ کیا گیا۔

وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ 'اب ہم ریڈیو اسکول بھی شروع کررہے ہیں اور ریڈیو کے ذریعے بھی تعلیم دی جائے گی، ہم اس مشکل وقت کو ایک موقع سمجھتے ہوئے فاصلاتی تعلیم کو بہتر کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'خدارا ہر چیز کو گندی سیاست کی نذر نہ کریں، ہم نے سب چیزوں کو توازن کے ساتھ چلانا ہے، ہمیں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہے اور صحت کی طرف توجہ دینی پڑے گی'۔

شفقت محمود نے کہا کہ زندگی کے شعبہ جات کو کھولنا ہے لیکن لوگوں کے زیادہ جمع ہونے پر خیال کرنا ہے اسی لیے اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے۔

کورونا وائرس پر پاکستان کی کیا حکمت عملی ہے؟شاہد خاقان

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلیکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'کل پاکستان میں 11 ہزار 848 ٹیسٹ ہوئے، 2 ہزار 255 مثبت آئے ہیں اور 19 فیصد کی شرح ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک وزیر صاحب نے کہا کہ ہم 40 ہزار ٹیسٹ کرسکتے ہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم 20 ہزار ٹیسٹ کررہے ہیں لیکن انہیں اس لیے معاف کردیں کیونکہ وہ وزیر خارجہ ہیں اور انہیں چیزوں کا علم نہیں ہوتا'۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'اس وقت 11 ہزار 800 ٹیسٹ میں شوقیہ ٹیسٹ بھی شامل ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جہاں شوقیہ ٹیسٹ ہورہے ہیں، یہاں فیصلہ ہوا کہ اسمبلی میں آنے والے اراکین کا ٹیسٹ کروائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کر کیا رہی ہے، طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت پالیسی بیان دیتی ہے جس پر اپوزیشن بات کرتی ہے پھر حکومت مکمل کرتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ کام کی ایک بات بھی نہ وزیر خارجہ نے کی اور نہ ہی دیگر وزرا نے کی، وزیرتعلیم نے 11 مارچ کو کہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں سے بات ہوگئی تو آپ کو تکلیف ہوئی، تنقید ہوگی کیونکہ ہم نے گالی نہیں دی، ہم نے نہیں کہا کہ چینی میں کوئی پیسہ بنا کر کھا گیا لیکن ملک میں کیا ہورہا ہے اس پر بات کرنے کا حق تودیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ادارے بنے ہیں اور ان کے طویل اجلاس ہوتے ہیں اور ویب سائٹ بھری پڑی ہیں لیکن میرا سوال ہے کہ یہ وزرا بتادیں کہ کورونا وائرس پر پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'اس ہاؤس کو ایک پرچی دیں کہ پاکستان کی کورونا وائرس پر حکمت عملی کیا ہے، مجھے نہیں پتہ اور نہ ان وزیروں کو پتہ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ویب سائٹس دیکھی ہیں جو خوبصورت ہیں، ڈاکٹر ظفر مرزا اور وزیر اعظم کی تصاویر ہیں اور اجلاس بھی ہورہے ہیں لیکن حکمت عملی کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 12 سے زیادہ تقریریں کیں، کرفیو کے بارے میں بتایا، دہاڑی دار مزدوروں کے بارے میں بہت تشویش ہے، جو ہمیں بھی ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی لاک ڈاؤن نہیں کروں گا اور کرنے نہیں دوں گا کیونکہ لوگوں کو نقصان ہوتا ہے۔

'وفاقی کابینہ نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا'

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کیا، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ اشرافیہ کون ہے، جس دن وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا اسی دن وزیراعظم کے گھر کے باہر کرفیو تھا، اسی لیے میں جاننا چاہتا ہوں کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کچھ اور کہتے ہیں، وزرا کچھ اور کہتے ہیں اور ترجمان کچھ اور کہتا ہے جبکہ ہوتا کچھ اور ہے، کابینہ نے فیصلہ کیا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کریں گے جو لاک ڈاؤن ہوا نہیں تو اس میں نرمی کیا کی بتادیں۔

وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ کا کوئی ایک فیصلہ دکھا دیں جس میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہو، سندھ اور پنجاب، کے پی اور بلوچستان کی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا لیکن وفاقی کابینہ کا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو دکھا دیں۔

انہوں نے کہا کہ نیویارک کے گورنر نے تعریف کی ہے پاکستان کی لیکن میں نے نہیں دیکھی جب ایک وزیر کہتا ہے تو میں مان لیتا ہوں لیکن اس غریب کے بچے کوپتہ نہیں تھا اور ہمارے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد نیویارک کے گورنر نے بھی اسمارٹ لاک ڈاؤن شروع کیا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایک کنفیوژن ہے، ایک پریشانی ہے جبکہ پاکستان میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے، 70 فیصد علاقوں میں لاک ڈاؤن نہیں ہوا، اسلام آباد، راولپنڈی میں لاک ڈاؤن نہیں ہے، میں مردان گیا تھا وہاں زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔

حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کر کیا رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر کہتے ہیں اسپین میں اور یورپ میں اتنے سارے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں یہاں اتنی نہیں ہوئیں شکر کریں اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔

کورونا وائرس کے خلاف حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت کا ایک ترجمان ہے، جو وزیراعظم بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہاں کون ہے کچھ پتہ نہیں ہے۔

وزیراعظم کے رویے سے دراڑ آئی، راجا پرویز اشرف

سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ کورونا وائرس پوری دنیا کے لیے چیلنج ہے اور اس پر پاکستان کے اس مقدس ایوان میں اس پر بحث ہونا خوش آئند بات ہے۔

انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور دیگر اراکین کی صحت یابی کے لیے دعا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری خواہش تھی کہ جب ایوان میں وبا پر بات ہو اور سیاسی باتیں کرنے سے ہماری توجہ بٹ جائے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو ذہن میں رکھ کر بات کریں اور اس اتحاد کو مدنظر رکھ کر بات کریں۔

رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ اس کی ذمہ داری حکومت وقت اور وزیراعظم کی ہوتی ہے کہ قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب حکومت نے نہیں بلکہ اسپیکر نے ایک اے پی سی بلائی جس میں بریفنگ دی گئی اور قومی قیادت کو مدعو کیا گیا جس کا مقصد بتایا گیا کہ قومی قیادت مل بیٹھ کر ایک حل نکالے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بھی اس اے پی سی میں آئے لیکن تقریر کرکے چلے گئے اور کسی قومی رہنما کی بات نہیں سنی اور وزیراعظم کے اس رویے سے ایک دراڑ آئی۔

انہوں نے وزیرخارجہ کے گزشتہ روز کے خطاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے سندھ حکومت کے اقدامات پر داد دی پھر طعنہ دیا کہ پیپلزپارٹی صوبائیت کی بات کررہی ہے، ایسی باتوں کی ان سے توقع نہیں تھی۔

راجا پرویز اشرف نے وزرا کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر یہ مسئلہ قومی ہے تو ذرا اپنے رویوں پر بھی غور کریں کہ آپ کا رویہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فرنٹ لائن سولجرز کو حفاظتی کٹس اور حفاظتی اقدامات کس نے کرنا تھا، زبان سے کچھ اور کہتے ہیں اور عملی طور پر کچھ اور کرتے ہیں۔

'وفاقی حکومت موقع کی مناسبت سے قدم نہیں اٹھا سکی'

سابق وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت موقع کی مناسبت سے قدم نہیں اٹھا سکی، تذبذب کا شکار رہی اور انتظار کرتے رہے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی تعریف کررہی ہے کیونکہ ان کا فیصلہ بروقت اور ٹھوس تھا جس سے وہ کامیاب ہوئے اور پیغام دیا کہ صبر اور اتحاد سے اس کا مقابلہ کریں گے۔

وفاقی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ سندھ حکومت خراب کام کررہی ہے، ہم سندھ حکومت کو کام کرنے نہیں دیں گے، ہمارے دو وزرا خصوصی طیارے میں جاکر ان کے کام کو سبوتاژ اور ان کی کردار کشی کرکے واپس آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا بڑا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور اس رویے کے ساتھ اتنے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے نکلے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلیف پیکج ساری حکومتیں دیتی ہیں لیکن ان نے 1100 ارب کے اعداد وشمار میں بھی ہیر پھیر ہے۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو بتایا گیا کہ 1100 ارب کا پیکج ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ 400 ارب روپے کا پیکج ہے اور عوام سے جھوٹ بولا گیا، عوام کا حق ہے کہ ان تک درست اعداد و شمار دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے جھوٹ اس ایوان کی توہین ہے جبکہ الزامات اپوزیشن پر لگائے جارہے ہیں، یہ حکومت کا جھوٹ اور فراڈ ہے۔

خدا کے لیے ایک دوسرے سے جنگ نہ کریں، امیر حیدر ہوتی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں کورنا وائرس سے پہلی موت مردان میں ہوئی جو بیمار ہونے کے باوجود ہسپتال نہیں جارہے تھے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹیسٹ نہیں کروا رہے ہیں اور ہسپتال جانے کو تیار نہیں ہیں۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر کچھ کیا جارہا ہے یا نہیں، ڈاکٹروں کے مطالبات اور تجاویز کو کیوں نہیں مانا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صحت کا نظام بہتر نہیں ہے تو اس میں ہم سب مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم سب حکومتوں میں رہے ہیں۔

اے این پی کے رہنما نے کہا کہ کیا یہ مناسب وقت ہے کہ ہم لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کرتے اور کیا ہمارے پاس وائرس کا عروج ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بیانیہ ہے کہ لوگ کورونا سے بعد میں مریں گے پہلے انہیں بھوک سے بچائیں اور معیشت کو بچائیں، بھوک کا مقابلہ کریں اور معیشت کے لیے جنگ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بیانیہ ہے کہ لوگ زندہ رہیں گے تو معیشت رہے گی اس لیے پہلے لوگوں کو بچائیں پھر معیشت کو ٹھیک کریں اور یہ دونوں بیانیے درست ہیں دونوں کو بچانا ہے لیکن خدا کے لیے ایک دوسرے سے جنگ نہ کریں۔

امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو کورونا وائرس کے مسئلے سے ملادیا گیا، اٹھارویں ترمیم 1973 کے آئین کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالیاتی تقسیم کے حوالے سے بات کی جاتی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم تو بعد میں آئی تھی لیکن این ایف سی پہلے آئی تھی اور این ایف سی ایوارڈ ہوا تھا جس کے نتیجے میں مرکز کا حصہ کم ہو کر صوبوں کا حصہ بڑھ گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور مختلف شعبے واپس چلے گئے ہیں اس لیے صوبوں کا حصہ بڑھ جائے گا اور اس کا مطالبہ آئے گا۔

اے این پی کے رہنما نے کہا کہ اس وقت ایسے معاملات کو نہ چھیڑا جائے جس سے ہمارے اتحاد کو نقصان پہنچے اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی ادویات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں اس لیے ہمیں اس کے ساتھ جینا ہے لیکن جب یہ وائرس چلا جائے تو کیا کرنا ہے اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

چترال میں ٹیسٹ کی سہولت دی جائے، عبدالاکبر چترالی

جماعت اسلامی کے چترال سے رکن اسمبلی عبدالاکبر چترالی نے مطالبہ کیا کہ حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے معاشی پیکج میں دینی مدارس اور طلبہ کو شامل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پیکج کے تحت ملک بھر کے دینی مدارس کو بجلی اور گیس کے بلوں کو معاف کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے کہا کہ چترال میں ٹیسٹ کے لیے پی سی آر مشین کے لیے درخواست کی تھی لیکن ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ چترال دور دراز اور پہاڑی علاقہ ہے، پہاڑی علاقوں کو اہمیت دی جائے اور ٹیسٹنگ کے لیے فوری طور پر ایک نظام دیا جائے تاکہ ہماری مشکلات دور ہوجائیں گی۔

ٹیسٹ کی صلاحیت جو ہونی چاہیے وہ نہیں ہے، محسن داوڑ

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

قبائلی علاقے سے رکن اسمبلی محسن داوڈ نے کہا کہ اسمبلی اجلاس کے علاوہ کورنا وائرس سے متعلق اجلاس ہوئے اس میں ہمیں دعوت نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لاک ڈاؤن سے کاروبار کا نقصان ہوا ہے لیکن وائرس کو محدود کرنے میں اس قدر کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

انہوں نے اعداد وشمار پیش کرتےہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جہاں کچھ دن پہلے کے اعداد وشمار کے مطابق 10 لاکھ پر 520 ٹیسٹ ہیں جو پنجاب میں 664، بلوچستان میں 813، سندھ میں سب سے زیادہ 1275 ہے۔

محسن داوڑ نے خیبر پختونخوا کے اعداد وشمار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ ٹیسٹ پشاور، مردان میں ہوئے ہیں لیکن دور دراز علاقوں کوہستان میں کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا، مہمند میں چند دن پہلے تک 15 ٹیسٹ فی ملین ہوئے، جنوبی وزیرستان میں 32 اور شمالی وزیرستان میں 42 ٹیسٹ ہوئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسز وائرس کے مقامی منتقلی کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دور دراز علاقوں میں ٹیسٹ کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

کورونا پر حکومت کے اعداد وشمار درست نہیں، خواجہ سعد رفیق

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ حکومت کی جانب سے خود ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس سے تلخی پیدا ہوئی اس ماحول سے فائدہ کسی کو نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر کوئی اچھا کام بھی کرتی ہے تو وہ اس تلخی میں دب جاتا ہے اس لیے اس کا مداوا بھی آپ کو خود کرنا ہے۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ نے کل جو اعداد وشمار بتائے جو درست نہیں تھے، جو نمبر ان کو بتائے گئے تھے وہ ٹھیک نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بتایا گیا کہ 70 لیبارٹری ہیں لیکن لیول تھری کی لیب ملک میں صرف ایک ہے جو لاہور میں بنی تھی اگر کہیں اور ہے تو اس کی فہرست دکھائیں، اگر کہیں اور بن بھی گئی ہیں تو اس کی تعداد 70 نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں ہماری ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے، ہمیں اس پر اتفاق نہیں ہے، تفتان میں افراتفری ہوئی اس سے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، اگر ایرانی حکومت دھکیل رہی تھی حکومت اور ریاست کے ادارے موجود ہیں وہ اس پر حکمت عملی بناتے۔

کورونا ٹیسٹ کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کورونا کا ایک ٹیسٹ تقریباً 8 ہزار کا ہورہا ہے، اگر کسی کے گھر میں 5 یا 6 لوگ ہیں وہ ٹیسٹ پر 50 ہزار روپے خرچ کرے گا، سرکاری ہسپتالوں میں قطاریں لگی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی کا مسئلہ ہوا تھا تو پرائیویٹ لیبارٹریوں میں 800 کا ٹیسٹ تھا جس کو ہم 80 روپے میں لے کر آئے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ 8 ہزار روپے کا ٹیسٹ 2 ہزار میں آسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار کا ہوسکتا ہے جس میں 10 فیصد منافع بھی شامل ہے، اگر حکومت کوشش کرتی تو اس کو 25 فیصد کم کرسکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ کیلئے استعمال ہونے والے پی سی آر ٹیسٹ مشین میں معمولی تبدیلی سے کورونا کے ٹیسٹ کیے جاسکتے تھے لیکن اب تک ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

کورونا وائرس کے کیسز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اموات اور متاثرین کے اعداد وشمار دیے جاتے ہیں جو غلط ہیں کیونکہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے جس میں ٹیسٹ کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے آپ کو معلوم نہیں ہے کہ کورونا کے مریض کتنے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کورونا سے کتنی اموات ہورہی ہیں، آپ تو صرف وہی بتا رہے ہیں جو رپورٹ ہوتی ہیں جب تک ٹیسٹ کی صلاحیت مکمل طور پر حاصل نہیں کی جاتی تب تک قومی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے۔

حکومت کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ملک میں وزیر صحت کوئی نہیں ہے اور وزیراعظم خود وزیر صحت ہیں جبکہ آپ کو صحیح معلومات نہیں دی جاتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت کے وزیر نہیں ہیں تاہم مشیر صاحب بیٹھےہوئے ہیں لیکن وہ عوم کو جواب دہ نہیں ہیں کیونکہ وہ ووٹ لے کر نہیں آئے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے مطالبہ کیا کہ ٹیسٹ کی قیمت 8 ہزار سے کم کرکے 2 ہزار تک لائیں۔

سندھ حکومت کو مزید پیسے چاہئیں تو احساس کفالت میں خود کو رجسٹر کرے، زرتاج گل

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر زرتاج گل نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے ہر ضلع کے اندر ایک ہسپتال بنارہے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کل بھی ایک ہسپتال کا افتتاح کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لیڈر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈر جاتے ہیں اور نیب کو لکھ کر دیتے ہیں کہ میری 70 سال کی عمر ہے اور مجھے کورونا وائرس کا خطرہ ہے دوسری طرف وہ لیڈر ہوتے ہیں جو بحران میں نکلتے ہیں اور ان کی بات عوام سن بھی لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بحران میں پتہ چل گیا ہے کہ قوم کتنی بہادر اور باکمال ہے، ہماری قوم نے باشعور ہونے کا ثبوت دیا اورکئی اقوام کو پیچھے چھوڑ دیا۔

زرتاج گل نے کہا کہ اگر سندھ حکومت کو 27 ارب کے علاوہ بھی چاہیے تو احساس کفالت کے اندر خود کو رجسٹرکروانا پڑے گا۔

عالمی ادارہ صحت نے وزیراعلیٰ سندھ کی کارکردگی کو سراہا، قادر پٹیل

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے سندھ حکومت کے خلاف بیانات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کو عالمی ادارہ صحت نے دوسرے نمبر پر بہترین قرار دیا۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے سب سے زیادہ کام کرنے والے وزیراعلیٰ کا نام وزیراعلیٰ سندھ کو دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو صوبہ ایک لاکھ سے زائد ٹیسٹ کرچکا ہو جس کی روزانہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ساڑھے 5 ہزار ہے اور باقی تمام کو ملا کر اس کے برابر نہیں ہے لیکن وہ اسی صوبے پر تنقید کرنے بیٹھے ہیں۔

رکن پی پی پی نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس این آئی سی وی ڈی کے 8 ہسپتال ہیں، جہاں 70 لاکھ سے زائد لوگ مفت میں صحت یاب ہوچکے ہیں اور 135 اضلاع کے لوگ وہاں سے علاج کرواچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 غیرممالک سے لوگ ان این آئی سی وی ڈیز میں علاج کرواچکے ہیں، اور سندھ کے پاس لیور ٹرانسپلانٹ ہے جو مکمل طور پر سندھ حکومت کے تحت چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیورٹرانسپلانٹ سینٹر میں اب تک 196 آپریشن ہوچکے ہیں اور 43 پنجاب سے صحت یاب ہوچکے ہیں اور 30 سے زائد بلوچستان ہے۔

قادر پٹیل نے کہا کہ ایک وزیر نے کہا کہ سندھ حکومت کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں دے سکتی لیکن سب کو معلوم ہے کہ یہ ویکسین این آئی ایچ اسلام آباد کے پاس ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ کے میئر ویکسین کی قیمت بھی ادا کرچکےہیں لیکن آپ اس کو ویکسین نہیں دے رہے ہیں۔

وزیراعظم کی بہترین حکمت عملی سے ترقی یافتہ ممالک سے بھی بہتر انداز میں لڑے، عامر ڈوگر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی اور چیف وہیپ عامر ڈوگر نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کی تقریر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت کی وجہ سے ہم کورونا کے خلاف بہتر انداز میں لڑے۔

قومی اسمبلی میں اختتامی تقریر کرتے ہوئے عامرڈوگر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت اور بروقت فیصلوں کے باعث کورونا وائرس اس طرح نہیں پھیلا جس طرح پھیلنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مزدور اور محنت کش کی بات کی ہے اور کہا کہ غربت اور افلاس سے لوگ نہ مریں جس سے ان لوگوں کو تکلیف ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی نیک نیتی اور ایمانداری اور بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ہم نے اس طرح مقابلہ کیا جس طرح امریکا، انگلینڈ، اسپین اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی نہ کرسکے۔

عامر ڈوگر نے کہا کہ میں اپنے اداروں اور حکومت کو اس کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

اجلاس 15 مئی تک ملتوی

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس کے آخر میں کورونا وائرس کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کیا اور متاثرہ افراد کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکمران جماعت کے اراکین کی بحث مکمل ہونے پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اجلاس بروز جمعہ (15 مئی) تک ملتوی کردیا اب 15 مئی کو صبح 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں