‏وزیر اعلیٰ سندھ کا چینی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار

کمیشن نے چینی کی برآمد پر اضافی سبسڈی دینے کے معاملے پر وضاحت کیلئے مراد علی شاہ کو طلب کیا تھا — فائل فوٹو / ڈان نیوز
کمیشن نے چینی کی برآمد پر اضافی سبسڈی دینے کے معاملے پر وضاحت کیلئے مراد علی شاہ کو طلب کیا تھا — فائل فوٹو / ڈان نیوز

‏وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چینی بحران کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) و کمیشن کے سربراہ واجد ضیا کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ 'کمیشن نے صوبائی حکومت کی جانب سے 2018-2017 میں چینی کی برآمد کے لیے اضافی سبسڈی دیے جانے کے معاملے پر وضاحت کے لیے وزیر اعلیٰ کو 13 مئی کو طلب کیا تھا۔

تاہم تحقیقات کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کے مطابق کمیشن وزیر اعلیٰ سندھ کو نہیں بلا سکتا جبکہ یہ طلبی پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے سیکشن 3 (3) کی بھی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

مزید پڑھیں: چینی برآمد کرنے کے فیصلے پر وزیراعظم سے نہیں مجھ سے سوال کیا جائے، اسد عمر

چینی بحران تحقیقاتی کمیشن کو 25 اپریل کو حتمی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم 24 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل کردہ کمیشن نے کورونا وائرس کی صورتحال سمیت مختلف وجوہات کی بنیاد پر وفاقی حکومت سے رپورٹ کے لیے باضابطہ طور پر مزید مہلت کی درخواست کی تھی۔

وفاقی کابینہ نے 28 اپریل کو چینی بحران کی تحقیقاتی کمیشن کو حتمی رپورٹ جمع کروانے کے لیے مزید 3 ہفتوں کا وقت دینے کی منظوری دی تھی۔

انکوائری کمیشن تحقیقات کے دوران کئی شوگر ملز مالکان کو بھی طلب کر چکا ہے جبکہ ثبوت پیش کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

چینی، آٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ

یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی بحران: وزیر اعظم، ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں، شاہد خاقان عباسی

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: آٹا، چینی اور آئی پی پیز کے معاملے کی تحقیقات فائلوں کی نذر نہیں ہوگی، شبلی فراز

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں