وزیراعلیٰ پنجاب چینی انکوائری کمیشن میں پیش، حکومت پنجاب کے کردار پر بیان ریکارڈ

اپ ڈیٹ 14 مئ 2020
وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کے مختلف سوالات کے جوابات دیے—فائل فوٹو: ٹوئٹر
وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کے مختلف سوالات کے جوابات دیے—فائل فوٹو: ٹوئٹر

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفاتر میں چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر حکومت پنجاب سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے انکوائری کمیٹی کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کے مختلف سوالات کے جواب دیے اور ان تمام تفصیلات کی وضاحت کی کہ کس طرح گنے کی گرشنگ کا معاملہ شدت اختیار کرگیا اور کن صورتوں میں سبسڈی اور فریٹ چارجز کی منظوری دی گئی۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کو بتایا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے 2 اکتوبر 2018 کو اس شرط پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی کہ سبسڈی یا فریٹ چارجز نہیں دیے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب کی بھرپور کوششوں کے باوجود چینی برآمد ہوسکی نہ کرشنگ کا آغاز ہوسکا ساتھ ہی انہوں نے ای سی سی کے فیصلے کی وضاحت کرنے والا وزارت تجارت کا خط بھی پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسد عمر چینی انکوائری کمیشن میں پیش، کابینہ، ای سی سی کے فیصلوں پر بیان ریکارڈ

ان کا کہنا تھا کہ شوگر ملز مالکان نے کرشنگ کی ممکنہ تاریخ کے بارے میں نہیں بتایا اور گنے کے کاشتکار پریشان ہوگئے کیوں کہ کرشنگ کو 30 نومبر سے زائد مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ دوسری جانب پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جارحانہ مہم شروع کردی تھی جس میں انہوں نے مارکیٹ میں مسابقتی برآمدات کے لیے فریٹ سبسڈی کو شامل کرنے کے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے تک کرشنگ نہ کرنے کا اظہار کیا تھا اور پنجاب بھر میں کاشتکاروں نے مظاہرے بھی شروع کردیے تھے

عثمان بزدار نے کہا کہ کمیٹی نے ان کے مسائل حل کرنے کے لیے شوگر ملز ایسوسی ایشن اور کسانوں کو بٹھایا جس میں انہیں بھی بلایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 نومبر کو کرشنگ شروع نہ ہوسکی اور کسانوں بالخصوص گنے کے کاشت کار سڑکوں پر آگئے اور امن و عامہ کی سنگین صورتحال پیدا ہوگئی۔

مزید پڑھیں: چینی بحران: وزیر اعظم، ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں، شاہد خاقان عباسی

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کسانوں کی حالت زار کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے بذات خود وفاقی وزیر خزانہ اور ڈی او کو خطوط لکھ کر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطالبات پر غور کرنے کا کہا کیوں کہ ان کے مطالبات وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے تھے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ 4 دسمبر کو اقتصادی رابطہ کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جہاں وفاقی حکومت کی سبسڈی کے بغیر 11 لاکھ ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی اور کمیٹی نے صوبوں کو اجازت دی کہ اگر انہیں مناسب لگے تو سبسڈی کا تعین کرلیں۔

تاہم 6 دسمبر تک بھی کرشنگ سیزن کا آغاز نہ ہوسکا اور وزیرخوراک اور زراعت نے آکر شوگر سیکٹر کو درپیش مشکلات اور کسانوں کے احتجاج اور مطالبات کے بارے میں بتایا۔

چنانچہ پنجاب حکومت کی کمیٹی نے 5 روپے 35 پیسے فی کلو سبسڈی کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا جس پر محکمہ خوراک نے 22 دسمبر کو ایک سمری بھیجی جسے کابینہ کے چھٹے اجلاس میں پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی بحران رپورٹ میں تاخیر وزیراعظم کو قصور وار ثابت کرتی ہے، شہباز شریف

انہوں نے بتایا کہ صوبائی کابینہ نے معاملات پر تفصیل سے غور کیا اور چینی کی ایکسپورٹ سبسڈی اور فریٹ سپورٹ کی مد میں مالی سال 19-2018 میں 3 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ منظور کرلی۔

چینی، آٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ

یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی بحران کی رپورٹ میں شریف خاندان کی بدمعاشی بے نقاب ہوگئی، فردوس اعوان

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔

تحقیقاتی رہورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں