اسلام آباد: ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔

یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔

اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا قلمدان واپس مل گیا

اپوزیشن جماعتوں کے اراکین چاہتے تھے کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کمیٹی کے اجلاس کو کچھ دن کے لیے ملتوی کیا جائے جبکہ بعدازاں انہوں نے اجلاس کو کم از کم اسے ایک روز کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی۔

اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا، انہوں نے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کے دعوؤں کو جھوٹ کہہ کر مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین کی جانب سے اس وقت واک آؤٹ کیا گیا جب ان کی التوا کی درخواست مسترد کردی گئی۔

واضح رہے کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی نشست اس وقت خالی ہوئی تھی جب فخر امام کو وفاقی وزیر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ میں رد و بدل، خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل

ادھر واک آؤٹ کے بعد پیپلزپارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے مذمت کی کہ حکومت نے چیئرمین کشمیر کمیٹی منتخب کرنے کے معاملے میں اتفاق رائے کی پارلیمانی روایت کو توڑ دیا۔

وہیں سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ شہریار آفریدی کے پاس اس کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننے کے لیے تجربے کی کمی تھی جس کی سربراہی ماضی میں نواب زادہ نصراللہ جیسی زبردست شخصیت کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا جب فخر امام کا نام اس پوزیشن کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔


یہ خبر 14 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں