وفاقی کابینہ میں رد و بدل، خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2020
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام اب قومی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سنبھالیں گے — فائل فوٹو
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام اب قومی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سنبھالیں گے — فائل فوٹو

ملک میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کردیا گیا ہے۔

وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا ہے اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔

کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام اب قومی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سنبھالیں گے۔

اسی طرح حماد اظہر وزیر اقتصادی امور کی جگہ اب وزیر صنعت کا قلمدان سنبھا لیں گے۔

کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل ہوگئی ہے اور اب وہ وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول ہوں گے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کیا گیا ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مزید ایک وزارت کے وعدے پر ایم کیو ایم پاکستان کابینہ میں دوبارہ شمولیت پر آمادہ

یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے رواں سال جنوری میں وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم تاحال ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا اور حکومتی و پی ٹی آئی نمائندوں نے کابینہ میں ان کی واپسی کی متعدد کوششیں کی تھیں۔

ادھر کابینہ میں کی جانے والی حالیہ تبدیلی کے مطابق وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا ہے جبکہ ہاشم پوپلزئی کی جگہ عمر حمید کو سیکریٹری قومی فوڈ سیکیورٹی اور ریسرچ تعینات کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹوئٹس کے ذریعے وفاقی کابینہ میں رد و بدل سے متعلق بتایا۔

چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ فرانزک آڈٹ کا نتیجہ 25 اپریل تک مرتب کرلیا جائے گا۔

چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ

واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ نے پنجاب کیلئے گندم کی منتقلی روک دی

تاہم انکوائرہ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

کس نے کتنا فائدہ اٹھایا

کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔

تبصرے (0) بند ہیں