'پورا میچ فکس کرنے پر کھلاڑی کو 10 کروڑ روپے ملتے ہیں'

اپ ڈیٹ 15 مئ 2020
ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ کامران اکمل کی لابی مضبوط تھی—فائل/فوٹو:ڈان
ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ کامران اکمل کی لابی مضبوط تھی—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر نے فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس نہ لینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے میچ فکس کرنے پر 10 کروڑ روپے تک کھلاڑیوں کو دیے جاتے ہیں۔

ڈیلی پاکستان کو خصوصی انٹرویو میں ذوالقرنین حیدر نے میچ فکسنگ پربات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے اپنے پہلے میچ میں 88 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ بنایا، جس کی جگہ گیا تھا وہ کامران اکمل تھے اور وہ مضبوط لابی کا حصہ تھے، اس وقت پنجاب کے 8 کھلاڑیوں کی لابی تھی، یاور سیعد منیجر تھے جنہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر کہا کہ ہم آپ کو واپس بھیج رہے ہیں کیونکہ آپ کو انجری ہے حالانکہ معمولی انجری تھی جو عموماً وکٹ کیپرز کے ساتھ ہوتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'معمولی انجری تھی جس کے بعد میں نے 88 رنز بنائے تھے لیکن میں واپس آیا اور میڈیا کو اپنی انگلی دکھا دی جس سے لوگوں کو سمجھ آگیا کہ معاملہ کیا ہے'۔

مزید پڑھیں:کامران اکمل بدعنوان ہیں، ذوالقرنین حیدر

سابق وکٹ کیپر کا کہنا تھا کہ 'اگلے ٹیسٹ میں 7 لڑکے پکڑے گئے جس میں کامران اکمل، محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ وغیرہ پکڑے گئے جس پر میڈیا نے کہا کہ ذوالقرنین حیدر کو اس لیے واپس بھیجا کیونکہ انہوں نے 88 رنز بنائے تھے اور ان کے لیے مسائل کھڑے نہ کرے'۔

'پاکستانی ٹیم میں پارلیمنٹ سے زیادہ سیاست ہے'

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'یہ لوگ اپنا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے ہیں، ان کی لابی اس قدر ممضبوط تھی کہ اپنے بندوں کو نواز کر بری ہوجاتے تھے اور اس لابی میں سلمان بٹ اور آصف سمیت 8 کھلاڑی شامل تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پنجاب کے 8 لڑکوں کی اپنی لابی تھی، شاہد آفریدی کی اپنی لابی تھی اور محمد یوسف اور اسی طرح یونس خان کی اپنی لابی تھی'۔

ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ 'میں جب ایک لابی کے ساتھ کھانے پر جاتا تھا تو دوسری لابی ناراض ہوجاتی تھی، دوسری کے ساتھ جاتا تو تیسری اور اسی طرح چوتھی لابی بھی ناراض ہوتی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں سرپکڑلیتا تھا کہ آپ کرکٹ کھیلنے گئے ہو یا سیاست کرنے گئے ہو، پاکستانی ٹیم میں پارلیمنٹ سے زیادہ سیاست ہے'ٓ۔

یہ بھی پڑھیں:میچ فکسنگ تنازع: پی سی بی نے سلیم ملک کو سوال نامہ بھیج دیا

سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ '2010 میں ورلڈ کپ سے قبل جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے تیسرا ون ڈے میچ پھنسا ہوا تھا میں وکٹ پر پریشان تھا اور عمر اکمل پانی لے کر آیا اور کہا کہ زیادہ فنِ خان نہ بنو آرام سے کھیلو میں نے پنجابی میں کہا کہ پانی پلاؤ اور باہر جاؤ'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس وقت وقار یونس کوچ تھے جن کے پاس عمر اکمل نے جا کر پوری بات نہیں بتائی صرف میری بات ان تک پہنچا دی، وقار یونس مجھ سے ناراض ہوئے جب مجھے بلایا تو کمرے میں عاقب جاوید بھی تھے پھر میں نے وضاحت کی'۔

'فکس میچ جتوایا اور بیگ اٹھا کر وہاں سے نکل گیا'

ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ 'چوتھے میچ سے قبل دبئی میں گرینڈ حیات ہوٹل میں 2 بندے ملے اور کہا کہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرو ورنہ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو مار دیں گے، اس وقت میرا دماغ مفلوج ہوگیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پھر ایک کھلاڑی ٹیسٹ کھیلنے آئے تھے اور میں نے ان سے مشورہ کیا کہ دھمکیاں ملی ہیں تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں اس طرح کی دھمکیاں مجھے بھی ملی تھیں لیکن انہوں نے ظاہر نہیں کیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں گھبرا گیا اور اپنا کیس ہینڈل نہیں کرپایا پھر چوتھا میچ جو انہوں نے فکس کیا تھا اس کو جتوایا اور بیگ اٹھا کر وہاں سے نکل گیا اور انگلینڈ جا کر پریس کانفرنس کی جہاں دنیا بھر کا میڈیا اکٹھا ہوا تھا، مجھے اس وقت شہریت کا کوئی ذہن میں نہیں تھا کیونکہ جیب میں پیسہ ہو تو مسائل نہیں ہوتے'۔

مزید پڑھیں:میرے پاس منفی لوگوں کے لیے وقت نہیں، وسیم اکرم کا ناقدین کو جواب

آخری میچوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ '2010 کے ورلڈ کپ سے قبل جنوبی افریقہ کے خلاف چوتھا اور پانچواں میچ فکس تھا'۔

کھلاڑیوں کی فکسنگ سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'عامر نے ایک نو بال کرنے کے لیے 5 ہزار ڈالر لیے تھے، ایک ٹیسٹ میں 8 سے 9 نوبال کرائیں تو 40 ہزار پاؤنڈ آرام سے جیب میں آتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وسیم اکرم اکثر پہلی گیند وائیڈ کیا کرتے تھے لیکن اس وقت اتنا ریٹ نہیں تھا کیونکہ ہم مارکیٹ میں رہتے ہیں تو ریٹ کا پتہ ہے، ایک پورا میچ فکس کرنے کے لیے اس وقت پاکستانی 4 کروڑ روپے ملا کرتے تھے'۔

ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ 'دبئی میں بکیز سے میں نے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ 2010 میں 4 کروڑ ریٹ تھا اور اب بھارت اور پاکستان کا فائنل یا اسی طرح کا اچھا میچ ہو تو 10 کروڑ روپے ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جن لوگوں نے میچ فکسنگ کی ہے ان کو واپس نہیں لانا چاہیے کیونکہ اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ان کو دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر لانا تھا تو پھر سب کو لاتے'۔

محمد عامر کی واپسی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'محمد عامر کو شکیل شیخ کا تعاون تھا اس لیے واپس آئے، اگر وہ نہ ہوتے تو عامر بھی کبھی واپس نہ آتے'۔

یہ بھی پڑھیں:اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی: عمر اکمل پر 3 سال کی پابندی عائد

انہوں نے کہا کہ 'میں نے بورڈ کو سب بتادیا تھا لیکن ہلکی پھلکی انکوائری ہوئی اور مجھے 5 لاکھ جرمانہ ہوا جو ٹھیک فیصلہ تھا کیونکہ میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا تو ڈسپلنری ایکشن ہوا دیگر معاملات میں کلیئر ہوا اور ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جسٹس قیوم نے اپنی رپورٹ میں معین خان، انضمام الحق، وسیم اکرم اور دیگر کو کوئی عہدہ نہ دینے کی بات کی تھی لیکن اب سب کے پاس عہدے ہیں'۔

یاد رہے کہ ذوالقرنین حیدر نومبر 2010 میں دبئی میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے دوران اچانک قومی ٹیم کو چھوڑ کر انگلینڈ پہنچ گئے تھے اور کہا تھا کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور لندن میں پناہ کی درخواست دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں