عالمی ادارہ صحت کی بچوں میں نایاب بیماری کے کورونا سے تعلق پر تحقیق

اپ ڈیٹ 16 مئ 2020
ابتدائی مفروضہ یہ ہے کہ یہ بیماری کووِڈ 19 سے تعلق رکھتی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
ابتدائی مفروضہ یہ ہے کہ یہ بیماری کووِڈ 19 سے تعلق رکھتی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کووِڈ 19 اور ایک غیر معمولی سوزشی بیماری میں ممکنہ تعلق پر تحقیق کی جارہی ہے جس کی وجہ سے یورپ اور امریکا میں بچے بیمار اور ہلاک ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران متعدد ممالک میں بچوں کے سوزشی بیماری سے متاثر ہونے کے کیسز رپورٹ ہوئے جن کی علامات کاواساکی نامی نایاب بیماری ملتی جلتی تھیں۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسز نے ایک وِرچووَل بریفنگ میں بتایا کہ ابتدائی مفروضہ یہ ہے کہ یہ بیماری کووِڈ 19 سے تعلق رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اموات کو سمجھنے اور علاج کی وضاحت کے لیے احتیاط سے فوری طور پر اس بیماری کی خصوصیات جاننا نہایت اہم ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں:بچوں میں کووڈ 19 سے ایک سنگین بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے اس بیماری کی ابتدائی کیس تعریف تیار کی ہے جس میں اسے ’ملٹی سسٹم انفلیمیٹری سینڈروم ان چلڈرن (ایم آئی ایس-سی)‘ کہا گیا ہے۔

ساتھ ہی دنیا بھر میں ڈاکٹروں کو ’اس بیماری کو بہتر طور پر سمجھنے اور تیار رہنے‘ کی ہدایت کی گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سے قبل فرانس کے ایک ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ 9 سالہ بچہ اس بیماری کے باعث ہلاک ہوا جو ملک میں اس طرح کی پہلی ہلاکت تھی، بچوں کی اسی طرح کی اموات کی نیویارک اور لندن میں بھی تحقیق کی جارہی ہے۔

لندن میں بچوں کے ہسپتال نے کہا کہ ایک 14 سالہ لڑکا جس کو صحت کے مسائل نہیں تھے وہ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوا اور اس میں کورنا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

دوسری جانب نیویارک کے گورنر اینڈریو کیومو نےکہا تھا کہ ریاست میں 3 بچے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 100 سے زائد کیسز کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: برطانیہ و اٹلی میں بچوں کو ہونے والی نئی بیماری کا تعلق کورونا سے ہونے کا انکشاف

اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او کی ماہر ماریہ وین کرخوف نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ اس بیماری سے کورونا وائرس کا تعلق ابھی ثابت نہیں ہوا کیوں کہ اس بیماری میں مبتلا کچھ بچوں میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں ڈبلیو ایچ او ایمرجنسیز کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ’اس چیز پر تمام ممالک کے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، اگر یہ بیماری کووِڈ 19 سے منسلک بھی ہے تو یہ اس کی وجہ سے نہیں ہورہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ جو نایاب چیزیں ہورہی ہیں یہ وائرس سے براہ راست تعلق رکھتی ہیں یا یہ وائرس کے ردِ عمل میں مدافعت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بچوں پر اثر انداز ہونے والی یہ بیماری ’بہت کمیاب‘ ہے اور صرف کووِڈ 19 کیسز کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے سامنے آئی۔

خیال رہے کہ برطانوی، اٹلی اور امریکی ماہرین نے سنگین مگر کم تعداد میں بچوں میں سامنے آنے والی نئی بیماری سے متعلق انتباہ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو ہدایات کی تھیں کہ وہ مذکورہ بیماری کی علامات کے نظر آتے ہی ماہرین صحت سے رجوع کریں۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں میں پیدا ہونے والی نئی بیماری سے متعلق امریکی ماہرین کا انتباہ

مذکورہ بیماری سے متعلق سب سے پہلے گزشتہ ماہ اپریل میں یورپی ممالک اٹلی و برطانیہ کے ماہرین صحت نے انکشاف کیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ہاں کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں متعدد بچے ایسی پراسرار بیماری میں چل بسے ہیں جو بیماری انہوں نے پہلے نہیں دیکھی۔

اس حوالے سے ایک تحقیق میں بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر بچوں میں پائی جانے والی یہی بیماری کورونا کی وجہ سے بچوں میں ہوئی ہوگی، اس بیماری سے متاثر بچے یا تو خود کم سطح پر کورونا کا شکار ہوئے ہوں گے یا پھر وہ ارد گرد میں کورونا کے مریضوں کے ہونے کی وجہ سے اس کا شکار ہوئے ہوں گے۔

ایسی بیماری میں مبتلا ہونے والے بچوں کا علاج کرنے والے نیویارک کے کوہن چلڈرن میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹر سنیل سود کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب تک جن بچوں کا علاج کیا ہے ان میں سے زیادہ تر کو دل کی سوزش کی شکایات تھیں.

تبصرے (0) بند ہیں