واشنگٹن: ایک امریکی بائیوٹیک کمپنی سورینٹو تھراپیوٹکس(ایس آر این ای) نے کہا ہے کہ اس کے پاس کورونا وائرس کی بیماری کے لیے علاج ہے۔

ادھر امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز نے رپورٹ کیا کہ امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ(این آئی ایچ) کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ محققین نے کورونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کی آزمائش کا آغاز کردیا ہے۔

ایک اور بائیوٹیک کمپنی نے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس ٹیسٹس کے نئے طریقہ کار کی منظوری حاصل کرلی ہے۔

ایس آر این ای کی چیف ایگزیکٹو ہنری جی نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ان کی کمپنی کی جانب سے تیار کی گئی اینٹی باڈی دوا کورونا وائرس کو 100 فیصد روک سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے خلاف تیز ترین ویکسین میں کتنی پیشرفت ہوچکی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم اس پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ایک علاج موجود ہے، اگر آپ کے جسم میں وہ اینٹی باڈی موجود ہے تو آپ کو سماجی دوری کی ضرورت نہیں۔

مذکورہ دعوے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں سورینٹو کے حصص میں 51.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

تاہم ایسی تحقیق کی نگرانی کرنے والے امریکی تھنک ٹینک ملکن انسٹیٹیوٹ نے احتیاط پر زور دیا اور کہا کہ کورونا وائرس کے ممکنہ علاج کے لیے 200 تھراپیوٹکس تیار کیے جارہے ہیں اور انفیکشن سے بچاؤ کے لیے 123 قابل ذکر ویکسین تیاری کے مراحل میں ہیں جن میں صرف 7 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کی جارہی ہے۔

ادھر صحت حکام کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں ویکسین کے امیدوارں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری عالمی برادری کی توجہ اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے پر مرکوز ہے جو 3 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن چکی ہے جبکہ 45 لاکھ افراد کو متاثر کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے دعوے اور ان کے جوابی دعوؤں کی وجہ سے الجھن اور بے چینی پیدا ہورہی ہے کیونکہ ان میں کوئی تجربہ اب تک یقینی علاج کا باعث نہیں بنا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت میں 5 کمپنیوں کو 'ریمڈیسیور' دوا بناکر فروخت کرنے کی اجازت

علاوہ ازیں ورلڈ اکنامک فورم کے لیے ایک رپورٹ میں امریکی دوا ساز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ’ویکسین کے امیدواروں کی تعداد سے جھوٹی امید نہ رکھیں کیونکہ 123 بہت زیادہ ہیں'۔

سی ای او اسٹیفن بینسل نے کہا کہ انسانی آزمائشوں کے لیے ان میں سے 7 ویکسینوں کی منظوری ایک مثبت علامت ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ’ریکارڈ مدت میں یہ پیشرفت واقعی حوصلہ افزا ہے اور امید کی ایک بڑی وجہ ہے‘۔

واضح رہے کہ ماڈرنا ویکسین امریکا میں 16 مارچ کو انسانوں پر کلینیکل ٹرائلز کا آغاز کرنے والی پہلی ویکسین تھی، اس کے علاوہ دیگر 6 ویکسین بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس، بائیو این ٹیک (BNT162)، کین سینو بائیولوجکس(Ad5-nCoV)،انویو، فارماسیوٹیکلز(INO-4800)، سینوویک بائیو ٹیک اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ(ChAdOx1 nCoV-19) سے آئی ہیں۔

علاوہ ازیں رواں ہفتے وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ امریکا کے اعلیٰ سطح کے درجنوں سائنسدان، فائنانسرز اور صنعت کے نامور افراد نے کورونا وائرس کے علاج یا اس سے بچاؤ کا طریقہ ڈھونڈنے کے لیے گروپ تشکیل دیا ہے جسے ' سائنٹسٹس ٹو اسٹاپ کووڈ-19 ' کا نام دیا گیا ہے۔

انہوں نے اس پروجیکٹ سے فائدہ نہ اٹھانے کا عزم کیا ہے اور تجاویز سے فائدے کے لیے کمپنیوں میں اگر شیئرز موجود ہیں تو انہیں بیچنے کا فیصلہ کیا۔


یہ خبر 16 مئی 2020 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں