چائلڈ پورنوگرافی کے ملزم کی رہائی کی شدید مخالفت کریں گے، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 17 مئ 2020
ملزم کو 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملزم کو 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اٹارنی جنرل فار پاکستان کا کہنا ہے کہ بچوں کی فحش فلمیں بنانے والے ملزم سعادت امین کی رہائی کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔

اٹارنی جنرل فار پاکستان کا کہنا ہے کہ بچوں کی فحش فلمیں بنانے والے ملزم سعادت امین کی رہائی کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کے بین الاقوامی گٹھ جوڑ کا حصے ہونے پر سزا پانے والے شخص کی سزا کو معطل کرتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: چائلڈ پورنوگرافی کے مجرم کی سزا معطل، ضمانت منظور

26 اپریل 2018 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے سعادت امین کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) 2016 کی دفعہ 22 کے تحت 7 سال کی سزا سنائی تھی اور 12 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

اس ضمن میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے ترجمان نے تصدیق کی کہ وفاقی حکومت، لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم کی رہائی سے متعلق عدالتی حکم صرف میڈیا پر نشر ہوا تاہم اب تک لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باضابطہ آرڈر جاری نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے برعکس لاہور ہائیکورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے ایک مراسلہ موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ کیس کی سماعت ایک مرتبہ پھر 19 مئی کو ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب ہوا کہ سعادت امین کی رہائی سے متعلق ابھی کوئی باضابطہ حکم نامہ جاری نہیں ہوا‘۔

اٹارنی جنرل کے ترجمان نے کہا کہ ’19 مئی کو ہونے والی سماعت میں وفاقی حکومت ملزم کی رہائی کی شدید مخالفت کرے گی کیونکہ وہ انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم میں مجرم قرار پا چکا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: بچوں کو انٹرنیٹ پر پورن فلمیں دیکھنے سے روکنے کیلئے قانون منظور

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل نے 2017 میں نارویجین سفارتخانے کی شکایت پر سعادت امین کو گرفتار کیا تھا۔

اس حوالے سے استغاثہ نے کہا تھا کہ مجرم پاکستان سے چلنے والے بین الاقوامی ریکٹ کا متحرک رکن تھا جو 10 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کو متوجہ کرکے ان کی فحش تصاویر/ویڈیوز کو مالی فائدے کی خاطر بیرون ملک بھیجتا تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مجرم کے قبضے سے چائلڈ پورنوگرافی کی 6 لاکھ 50 ہزار سے زائد تصاویر اور ویڈیوز کو برآمد کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ سعادت امین کے بین الاقوامی چائلڈ پورنوگرافر، جس میں سویڈن میں جان لِنڈاسٹروم، اٹلی میں جیووانی بیٹوٹی، امریکا میں میکس ہنٹر، برطانیہ میں اینڈریو مووڈی اور مختار کے ساتھ رابطے میں تھے جبکہ ایجنسی کی جانب سے مجرم کے خلاف 11 گواہوں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بڑھتی ہوئی شکایات کے پیش نظر ایف آئی اے سائبر کرائم سینٹرز کی تعداد میں اضافہ

عدالت عالیہ کے سامنے دائر درخواست میں مجرم کے وکیل رانا ندیم احمد نے اعتراض کیا تھا کہ ایجنسی کی جانب سے کی گئی تحقیقات ناقص تھیں کیونکہ وہ ناروے میں مبینہ غیرملکی ایجنٹ کی گرفتاری یا اس سے تفتیش میں ناکام رہی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان کے موکل کی جانب سے بیرون ملک سے موصول کی گئی رقم چائلڈ پورنوگرافی کے عوض نہیں تھی۔

واضح رہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کے مقدمے میں 7 سال قید، 50 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے چائلڈ پورنوگرامی سے متعلق واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس میں ریپ اور قتل کانشانہ بننے والی زینب انصاری کا کیس حکومتی توجہ حاصل کرسکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم کے 15 نئے شکایتی مراکز قائم کرنے کی اجازت

زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اس بل کو وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے گزشتہ سال جون کے مہینے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس گھناؤنے جرم کے بعد قصور میں مظاہرے سامنے آئے تھے جس میں 2 افراد ہلاک بھی ہوئے تھے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر #JusticeforZainab کے نام سے ٹرینڈ کے ذریعے عوام نے بچوں پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی تھی۔

دوسری جانب سائبر کرائمز سے متعلق شکایات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے خصوصی اختیارات مانگ لیے

ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے محمد افضل بٹ نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملک میں مزید 10 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی تعداد اب بڑھ کر 15 ہوگئی ہے۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں کوئٹہ اور گوادر، سندھ میں کراچی حیدرآباد اور سکھر، پنجاب میں لاہور، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور راولپنڈی، خیبرپختونخوا میں پشاور، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک سینٹر قائم کیا گیا ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ سائبر کرائم میں شہریوں کی شکایتوں پر سست روی سے کام کرنا کیوں مشکل ہورہا ہے تو محمد افضل بٹ نے بتایا تھا کہ سی سی آر سیز کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ نئے قائم کیے گئے سینٹرز کے پاس اپنی گاڑی ہی موجود نہیں جبکہ تکنیکی حد بندی اور سوشل میڈیا ایپ کی انتظامیہ کی جانب سے مکمل تعاون نہ ملنے کی وجہ سے معاملات سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

خیال رہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر کمپنیوں کے پاکستان میں دفاتر موجود نہیں ہیں تاہم ایف آئی اے کو کسی شکایت کے نتیجے میں درکار معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کمپنیوں کے امریکا میں موجود دفاتر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں